ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
جاں نثاری کے شہ دلاتے ہو
کیوں مرا ظرف آزماتے ہو
شاخ کو سر بلند ہوتے ہی
کتنے حیلوں سے تم جھکاتے ہو
جی کو جچتا نہیں ہے کیوں جانے
حرف جو بھی زباں پہ لاتے ہو
شکل احوال کی ہے کیا اور تُم
اُن کی تصویر کیا دکھاتے ہو
تُم بھی کیا سادہ لوح ہو ماجدؔ!
آنسوؤں سے دیے جلاتے ہو
ماجد صدیقی
جواب دیں