ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
حسن شاخوں کا انہیں لوٹا سکے
کون ہے جو دل مرا بہلا سکے
آسماں کے، اِس زمیں کے، دہر کے
دل یہ کس کس کے ستم گنوا سکے
اُس ہوا کی خنکیاں کس کام کی
روح کے گھاؤ نہ جو سہلا سکے
سانس تک بھی قرض کا لیتا ہے جب
آدمی کس بات پر اِترا سکے
آس دوشیزہ ہے وہ جس کو کبھی
ہم نہ انگوٹھی کوئی پہنا سکے
خود سرِ دربارِ شہ عریاں ہے جو
ذوق کیا خلعت ہمیں دلوا سکے
ماجد صدیقی