ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
درِ ہجراں وہ دل پر آ کھُلا ہے
کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے
جدھر ہے زندگی اور موت بھی ہے
پرندہ پھر اُسی جانب اُڑا ہے
اُدھر مہتاب سا چہرہ ہے اُس کا
اِدھر بے چین ساگر شوق کا ہے
جلائے جسم و جاں کو دمبدم جو
پسِ خواہش وہ پیکر آگ سا ہے
گیا ہے اَب کے یُوں وہ داغ دے کر
کہ جیسے پیڑ سے پتا گرا ہے
یہ وہ جانیں جنہیں نسبت ہے اُس سے
ہمیں کیا وہ بُرا ہے یا بھلا ہے
زباں پر نام ہے اُس کا کہ ماجدؔ
سرِ مژگاں کوئی آنسو رُکا ہے
ماجد صدیقی