ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
جب بھی آئے کبھی چمن پہ نکھار
چرخ کرتا ہے اُس پہ گرد نثار
جس شجر پر سجے تھے برگ اور بار
رہ گئے اُس پہ عنکبوت کے تار
دامنِ وقت جو نہ تھام سکے
عمر بھر کاٹتا ہے وہ بیگار
شیر اُنہیں بھی ہے چاٹنے نکلا
میرے خوں سے بنے جو نقش و نگار
دشت میں تشنہ کام ہرنوں کو
آب ملتا تو ہے مگر اُس پار
سر پہ جب تک ہے آسماں ماجدؔ
آشیاں بھی کہاں ہے جائے قرار
ماجد صدیقی
جواب دیں