ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
پھر دکھائی ہے شوخی ہوا نے
پیڑ کوئی لگا پھر ٹھکانے
کس توقّع پہ نوکِ مژہ پر
آنکھ موتی لگی ہے سجانے
میری جنّت ہے سب سامنے کی
سینت رکھوں نہ میں پل پرانے
جی سنبھلتا ہو جس سے کسی کا
بات ایسی یہ خلقت نہ جانے
یُوں تو بچھڑا ہے کل ہی وہ لیکن
دل یہ کہتا ہے گزرے زمانے
دَین سمجھو اِنہیں بھی اُسی کی
غم بھی ماجدؔ دئیے ہیں خدا نے
ماجد صدیقی
جواب دیں