ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
بعدِ طوفاں کوئی نشاں کیسا
پیڑ اُکھڑے تو آشیاں کیسا
اُن پہ گزرا ہے جو گراں اِتنا
لفظ اُترا سرِ زباں کیسا
پا بہ زنجیر کر دیا جس نے
سُست رَو ہے یہ کارواں کیسا
ہے پرندوں سی بُود و باش اپنی
فائدہ کیا ہے اور زیاں کیسا
بچھنے والی نظر کے ایواں میں
ہاتھ دِکھلا گئی کماں کیسا
چاند پھر بادلوں میں اُترا ہے
دیکھ ماجدؔ وہ ہے سماں کیسا
ماجد صدیقی