ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
چھیڑا یہ کس نے ذکر ہَوا کے عتاب کا
منظر ہے پھر نگاہ میں پھٹتے حباب کا
برسے تو پیڑ پیڑ جڑوں سے اکھیڑ دے
یہ بھی تو اِک چلن ہے اُمڈتے سحاب کا
کس سے کہوں کہ اس کی چمن میں خطا ہے کیا
نُچنے پہ آ گیا ہے بدن کیوں گلاب کا
دیکھی جہاں کہیں بھی کوئی جانِ ناتواں
پنجہ وہیں پہ آ کے پڑا ہے عقاب کا
ماجدؔ ہیں ہم وہ گوشۂ صحرا کہ جس کی اور
پھرنے کو رُخ نہیں ہے کسی جُوئے آب کا
ماجد صدیقی