ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
اُترا ہے جو منہ کلی کلی کا
مظہر ہے چمن کی تشنگی کا
پھٹنے کو ہے کیا کوئی پٹاخہ
کیوں شور تھما لگے گلی کا
اوہام فنا نظر میں رقصاں
تحفہ ہے یہ عمر ادھ ڈھلی کا
دیکھا کوئی گُل تو یاد آیا
ہنسنا کسی ناز کی پلی کا
اس شوخ کا جسم ہے کہ ماجدؔ
موزوں کوئی شعر ہے ولیؔ کا
ماجد صدیقی
جواب دیں