ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
جھڑے مثلِ خس، برگ و بر دیکھنا
سسکنے لگے پھر شجر دیکھنا
فضائے مقاصد کی وسعت اُدھر
اِدھر مُشت بھر بال و پر دیکھنا
خراشوں پہ اِس کی بھی کرنا نظر
یہ دل بھی مرے شیشہ گر دیکھنا
یہی آج کا جام جمشید ہے
ذرا جانبِ چشمِ تر دیکھنا
اُبھرنا وہ اس چاند کا اور وہ
بسوئے اُفق رات بھر دیکھنا
شگفتِ نظر جس کا آغاز ہے
یہ موسم کبھی اَوج پر دیکھنا
کہو کیوں جنوں ہے یہ ماجدؔ تمہیں
جِسے دیکھنا باہُنر دیکھنا
ماجد صدیقی