ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
جس پیکر میں لذّت کی تجسیم ہوئی
خوئے ستم بھی اُس کی ہی تسلیم ہوئی
فائق ہے حق جذبۂ شوق پہ کھیڑوں کا
چاہت کے دستور میں یہ ترمیم ہوئی
ننگی ہو گئیں گھڑیاں زخم اٹھانے کی
ساعتِ لطف کی جس دم بھی تقویم ہوئی
شدّتِ جور سے لوگ ہوئے یوں لب بستہ
ہوتے ہوتے خاموشی تنویم ہوئی
ماجدؔ تجھ کو کیوں شکوہ ہے لوگوں سے
ایسی بھی کیا کم تیری تکریم ہوئی
ماجد صدیقی