ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
جب بھی مجھ سے دُور وہ جانے لگتا ہے
بال سا اک شیشے میں آنے لگتا ہے
ابر کے اَوج سے جب بھی خاک پہ اترے تو
پانی کیا کیا زور دکھانے لگتا ہے
وقت فرعون بنائے کسی کو کتنا ہی
ایک نہ اک دن وہ بھی ٹھکانے لگتا ہے
دشت میں بھی یہ معجزہ ہم نے دیکھا ہے
جھونکا سا اک پیاس بجھانے لگتا ہے
دکھلائی دے چھاؤں جہاں بھی پرندے کو
چونچ سے اپنے پَر سہلانے لگتا ہے
مارا ہے کیا تیر سخن میں ماجدؔ نے
ہر ہر بات پہ کیوں اترانے لگتا ہے
ماجد صدیقی