ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
تحریر آشتی کی جہاں تھی لکھی ملی
اک کھال بھی ہرن کی وہیں پر سجی ملی
تیتر جہاں تھا پر تھے قفس میں وہاں پڑے
بلی زبان منہ پہ اُدھر پھیرتی ملی
ہاں بے قرار، صید گنوا کر تھا شیر بھی
نتھنوں میں بھیڑ کے بھی لگی دھونکنی ملی
تَیرا فضا میں بن کی جہاں بھی کہیں عقاب
مچتی نشیمنوں میں عجب کھلبلی ملی
سمجھے وہ چیل، دشت موافق سبھی کو ہے
چڑیوں پہ ٹوٹ کر ہے جسے تازگی ملی
یادوں کو بچپنے کی جو الٹا تو جا بجا
بہروپئے کے تن میں سمائی چھری ملی
ماجدؔ! ہوا کو جس نے دکھائی تھی سرکشی
کچھ روز میں وہ شاخ زمیں پر پڑی ملی
ماجد صدیقی
جواب دیں