ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
بہ کشتِ غیراں جو شوخ موسم بہار کا ہے
اُسی سے رشتہ مرا بھی کچھ دُور پار کا ہے
ہم اپنی شاخوں سے زمزمے جھاڑنے لگے ہیں
کہ اب تو کھٹکا تباہیٔ برگ و بار کا ہے
بھٹکنے والا اَڑا کے پیروں میں باگ اپنی
نجانے گھوڑا یہ کس لُٹے شہ سوار کا ہے
ہَوا بھی آئے تو کاٹنے سی لگے بدن کو
وہ خوف، زنداں میں تیغِ قاتل کی دھار کا ہے
بلا سے صیّاد راہ میں گر کماں بکف ہے
ہمیں تو اُڑنا ہے رُخ جدھر اپنی ڈار کا ہے
ہَوا پہ جیسی گرفت ماجدؔ حباب کو ہو
ہمیں بھی زعم اُس پہ بس وہی اختیار کا ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں