ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
جب سے اُسے دیکھا ہے خود سے کھنچتا سا
آنے لگا ہوں میں بھی نظر کچھ آدھا سا
اُترا تھا جو کل تک ارضِ سماعت میں
آنکھوں سے وہ زہر لگے اب رِستا سا
پوچھتے کیا ہو حال مرا یہ جان ہے اور
ایک شکنجہ چاروں اور سے کستا سا
دشتِ نظر میں کب نت لوٹ کے آتا ہے
اُس کی دید کا موسم بھیگا بھیگا سا
کیا جانوں یہ جان سلگتی ہے کیونکر
پل پل دیکھوں خون رگوں میں جلتا سا
انت ملے کب جانے سُکھ کے سپنوں کو
جو پل آئے دے جائے اک جھانسا سا
ماجدؔ ریت جھنکی پھر اپنی آنکھوں میں
دیکھا ہے پھر منظر ایک اجڑتا سا
ماجد صدیقی