ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اب کے اُمید یُوں بھی نکھرنے لگی
آنکھ میں اک نمی سی اُبھرنے لگی
یہ اثر بھی ہے شاید مری آہ کا
آسماں سے بھی ہے آگ اُترنے لگی
خود تو اُجڑا مگر جس پہ تھا گھونسلا
شاخ تک وہ شجر پر بکھرنے لگی
نسلِ آدم ہوئی سنگ دل اور بھی
جب سے پاؤں سرِ ماہ دھرنے لگی
پیڑ کو جو سزا بھی ہوئی، ہو گئی
رُت کہاں اُس میں تخفیف کرنے لگی
کچھ دنوں سے ہے وہ سہم سا رُوح میں
سانپ سے جیسے چڑیا ہو ڈرنے لگی
یہ بھی دن ہیں کہ اَب اُس کے دیدار کی
بھوک بھی جیسے ماجدؔ ہے مرنے لگی
ماجد صدیقی