ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
جان کے در پَے وُہ تنہائی لگے
آسماں سی جس کی پہنائی لگے
بخت میں اُس کے بھی ہے گردش کوئی
چاند سی جو شکل گہنائی لگے
آنکھ میں اُتری ہے پھر پت جھڑ وہی
جس سے پہلے کی شناسائی لگے
پھر ہمیں وہ چھوڑ کر جانے لگا
پھر کسی جنگل میں شام آئی لگے
اُونٹ ہی سے بات یہ پوچھے کوئی
سہل کتنی اُس کو اُترائی لگے
کیا کہیں ماجدؔ نجانے کیوں ہمیں
یار بھی یوسف کے ہیں بھائی لگے
ماجد صدیقی