ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کوئی نشانِ سکوں آنکھ کی فضا میں نہیں
یہ کیا ہُوا کہ بجز اشک نم ہَوا میں نہیں
لگاؤں چوٹ نہ کیوں میں بھی چوٹ کے بدلے
قصاص میں جو مزہ ہے وہ خوں بہا میں نہیں
رگوں میں دوڑتے خوں تک سے بدگمان ہیں ہم
مراد یہ کہ یقیں قربتِ خدا میں نہیں
نمو شجر کی نہ ڈھونڈو برستے ژالوں میں
کہ مسئلے کا جو حل ہے فقط سزا میں نہیں
ترے سخن میں چبھن جس طرح کی ہے ماجد
کسک یہ اور کسی بھی غزل سرا میں نہیں
ماجد صدیقی