ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
خاص ہے اُس سے جو اِک داؤ چل جائے گا
چڑیا کے بچّوں کو سانپ، نِگل جائے گا
ایک شڑاپ سے پانی صید دبوچ کے اپنا
بے دم کر کے اُس کو، دُور اُگل جائے گا
اُس کے تلے کی مٹی تک، بے فیض رہے گی
اِس دُنیا سے جو بھی درخت اَپَھل جائے گا
خوف دلائے گا اندھیارا مارِ سیہ کا
مینڈک سا، پیروں کو چھُو کے اُچھل جائے گا
سُورج اپنے ساتھ سحر تو لائے گا پر
کُٹیا کُٹیا ایک الاؤ جل جائے گا
کب تک عرضِ تمنّا پر کھائے گا طمانچے
لا وارث بچّوں سا دل بھی سبنھل جائے گا
ماجد کی جو خواہش بھی ہے بچّوں سی ہے
تتلی کو دیکھے گا اور مچل جائے گا
ماجد صدیقی