ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
رہن جن کے عوض ہو متاعِانا ،ہیں شرف کی مجھے وہ قبائیں ملیں
میں وہ بد بخت فرزندِ اجداد ہُوں جس کو ورثے میں ہوں التجائیں ملیں
دیر تھی گر تو اتنی کہ نکلے نہ تھے بال و پر اور جب یوں بھی ہونے لگا
فصل کٹنے پہ کھیتوں سی اُجٹری ہوئی کیا سے کیا کچھ نہ رنجور مائیں ملیں
بخت کسبِ سعادت میں بھی کیا کہوں صیدِ اضداد ٹھہرا ہے کچھ اِس طرح
دیس ماتا کی خفگی سے رد ہو گئیں ماں کی جا نب سے جتنی دعائیں ملیں
شور ہے باد و باراں کا چاروں طرف حشر زا لمحہ لمحہ مسافت کا ہے
کاغذی جن کے ڈھانچے ہیں ماجد ہمیں سر چھپانے کو ہیں وہ سرائیں ملیں
ماجد صدیقی