ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
سرفرازی بھی دے خجالت بھی
دے شرف تخت، دے رزالت بھی
منصف و مدّعی ہے زورآور
آپ اپنی کرے وکالت بھی
چھُوٹتے ہی جو وار کر ڈالے
نام اُسی کے لگے بسالت بھی
ہم نے دیکھے ہیں بر سرِ عالم
قتل مِن جانبِ عدالت بھی
وہ کہ جو بے خطا ہے، اندر سے
خون کھولائے اُس کی حالت بھی
ضد ہو میزانِ عدل جب ماجد!
کیا کرے بحث کی طوالت بھی
ماجد صدیقی