ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
لٹ جانے کے خدشوں سے دو چار ہوئے
جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے
شہرِ ستم میں حرص و ہوا کی سازش سے
کیا کیا اہلِ نظر، وقفِ دربار ہوئے
شاخ پہ کونپل بننے اور کھِل اٹھنے کے
کیا کیا سپنے آنکھوں کا آزار ہوئے
باغ میں جانے اور مہک لے آنے کے
بادِ صبا سے کیا کیا قول اقرار ہوئے
دریا میں منجدھار ہی دشمنِ جان نہ تھی
اور بھی کچھ دھاوے ہم پر اُس پار ہوئے
راہبری کا ماجد! قحط کہاں ایسا
جیسے اب ہیں، ہم کب یُوں نادار ہوئے
ماجد صدیقی
جواب دیں