ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
یہ کیا؟ کچھ کہنے کے بعد ہی سوچا جائے
جو کہنا ہے، پہلے کیوں نہ پرکھا جائے
مان بھی لیں، ممکن ہے، قدم اپنے ہی غلط ہوں
دُور نکل آئے ہیں بہت، اب لوٹا جائے
کھوج میں شاید شرط یہی، بار آور ٹھہرے
اور ذرا گہرے پانی میں، اُترا جائے
دریا میں کھُر جائے گھڑا کھُر جانے والا
ٹھہرا ہو جو عہد وہ عہد نہ توڑا جائے
مژدۂ عید سنانے والا چاند، ہمیشہ
بعد برس کے، پھر چاہت سے دیکھا جائے
ماجد صدیقی
جواب دیں