ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
ذِی نفس جو بھی ہے اُس کو جان کا کھٹکا لگا
بھیڑیوں کی دھاڑ سے ہے دشت بھر دِبکا لگا
اِس طرح کرنے سے اُٹّھے گی عمارت اور بھی
سرفرازی چاہیے تو اور بھی پیسا لگا
جان لے اخلاق سے ہٹ کر بھی کچھ آداب ہیں
مختصر یہ ہے کہ جتنا ہو سکے مسکا لگا
نرخ اِس یوسف کے اَنٹی سے بھی ارزاں ہو گئے
آدمی ہی جس طرف دیکھا ہمیں سستا لگا
لُو چلی تو، وہ کہ منکر تندیِ موسم کے تھے
چیخنا اُن کا ہم اہلِ دل کو بھی اچّھا لگا
کر کے اک قتلِ مسلسل سے ہمیں دو چار وہ
پُوچھتا ہے وار خنجر کا کہو، کیسا لگا
دیکھ کر دھندلا گیا جس کو بدکتا چاند بھی
اب کے یوں روئے سحر ماجد ہے کچھ اُترا لگا
ماجد صدیقی