ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
گھُٹن کی آنچ میں جب سے جلا ہے
بدن ، پیہم اُدھڑتا جا رہا ہے
نگاہِ نا رسا تک پر کھُلا ہے
ہمارا درد ، پیوندِ قبا ہے
پہن لے دام ، لقمے کی ہوس میں
پرندہ عاقبت کب دیکھتا ہے
اثر ناؤ پہ جتلانے کو اپنا
سمندر ، ہم پہ موجیں تانتا ہے
بھنویں جس کی ، کمانوں سی تنی ہیں
قرابت دار وہ ، دربار کا ہے
کسی کے ذوق کی تسکین ٹھہرا
ہرن کا سر ، کہیں آ کر سجا ہے
دیا جھٹکا ذرا سا زلزلے نے
مکاں لیکن ابھی تک ، ڈولتا ہے
لگے سن کر سخن چاہت کا ماجد
کہیں تنّور میں ، چھینٹا پڑا ہے
ماجد صدیقی