ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
خون میں برپا رہتی تھی جو ہلچل سی
اب کے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی
ایسی کیوں ہے، آنکھ نہیں بتلا سکتی
نِندیا ہے کہ گرانی سے ہے بوجھل سی
لا فانی ہے، یہ تو کتابیں کہتی ہیں
روح نجانے رہتی ہے کیوں بے کل سی
رات کا اکھوا ہے کہ نشانِ بد امنی
دور افق پر ایک لکیر ہے کاجل سی
منظر منظر تلخ رُوئی ہے وہ ماجد
اُتری ہے جو آنکھوں آنکھوں حنظل سی
ماجد صدیقی