ایک ’’جینوئن کاز ‘‘ کے لئے اپنے چند دوستوں کے ہمارہ ہماری جوکشاکش ایک شخص کے نقصان مایہ کے علاوہ شماتت ہمسایہ پر بھی منتج ہوئی۔ اس سے ہمیں کسی مسرت یا فتح مندی کا احساس تو کیا ہونا تھا اس سلسلے میں ہمیں کچھ قلق بھی نہ ہوا۔ اس لئے کہ ایک تو یہ انتہائی کارروائی موصوف نے بقائمی ہوش و حواس خود اپنے قلم سیکی تھی، دوسرا یہ کہ ان کی روایتی ہٹ دھرمی بالآخر آنے والی کئی نسلوں کیبلے کا بھی باعث بنی، ورنہ جہاں تک ہمارے اپنے حاسۂ دردمندی کا تعلق ہے، ہم تو بعض اوقات اس گوتمی طرز احساس کے اسیر بھی ہو جایا کرتے تھے۔
آہلنیوں اک وٹ سی ڈِگّا
چڑیاں چڑ چڑ چوں چوں لائی
کال کلوٹا کا گا ہسیا
چڑیاں دی اکھیاں وچ پھر گئی
بھیڑی موت دی کال سیاہی
کوئی اخباری مل جاندا تے
ایہہ وی خبر تے واہ واہ آہی
ہیڈماسٹر صاحب کے مستعفی ہونے سے جو سیٹ خالی ہوئی۔ کچھ دنوں تک
تو…
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
کا نمونہ بنی رہی،اس لئے کہ مذکورہ سکول میں پچھلے کچھ عرصے سے باہم کھینچا تانی کاجو ماحول استوار ہو رہا تھا، اس کی خبریں دور و نزدیک ساتھ ساتھ جاتی رہی تھیں، لہذا کوئی بھی ہیڈماسٹر یہ تخت کیوی بآسانی قبول کرنے کے لئے رضا مند نہ تھا لیکن یہ عبوری دور بھی زیادہ عرصے تک جاری نہ رہا، اور ہمارے وہاں قیام کے دوران ہی میں سکول کے تیسرے سر براہ بھی نہایت سراسیمگی کے عالم میں تشریف لے آئے۔
سکول کے ماحول میں نہ تو پہلے ہی کوئی قابلِ ذکر خرابی تھی اور نہ آئندہ کسی ایسی خرابی کے پیدا ہونے کا امکان تھا، اس لئے کہ……
نہ مار نہ کُٹ تے آندر گھُٹ
کے مصداق بقائے امن کا ماحول برقرار رکھنے کا اہتمام ادائیگیوں کارکشائیوں اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں مسلسل روڑے اٹکانے سے محکمے نے خود ہی کر رکھا تھا۔
نئے ہیڈماسٹر صاحب آئے تو موصوف نے آتے ہی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب فرمایا جس میں انہیں سکول کی اینٹوں سے لے کر سیکنڈ ہیڈماسٹر تک ہر جانب سے بھرپور تعاون کا معقول سگنل ملا، چنانچہ اس سے جہاں نووارد کی سراسیمگی میں کچھ کمی ہوئی وہاں سکول کی فضا میں بھی ایک خوش آئندہ قسم کا ٹھہراؤ پیدا ہونیلگا اور ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا ہو گا کہ موصوف نے بھی اپنے پیشرو کی انتہا پسندی کو بھانپ لیا۔
ہم کو اپنا تعلیمی کیرئر مکمل کر چکے تھے یعنی وہ منزل ہمیں مل چکی تھی جس کے لئے؎
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
معرکۂ تعطیلات کے سر ہونے کے بعد اب مزید کسی عرصے کے لئے کسی اور معرکے میں ٹانک اڑانے جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، لہذا پاکستان ٹائمز کے صفحات کے ان حصوں کو ذرا اور بھی دقت نظر سے پڑھنے لگے جنہیں اشتہارات روزگار کہا جاتا ہے اور جنہیں پچھلے متعدد برسوں سے اپنے خرچ پر بلا ناغہ پڑھتے چلے آرہے تھے۔
ایک دن ایسے ہی ایک اشتہار پر نظر پڑی تو کھلا یہ کہ ملکِ عزیز کے شہر سیالکوٹ کے ایک کالج میں شعبہ اردو میں ایک عدد لیکچر اردرکار ہے، ہمیں یہ بے بدل سعادت حاصل ہوتی نظر آئی تو بلاتامل کالج مذکور کی انتظامیہ کو ایک عدد درخواست داغ دی جس کے جواب میں ہمیں جلد ہی بلاوے کا خط بھی آ گیا۔
ہم نے سیالکوٹ کا رُخ کیا تو اپنے ہمراہ اپنے ایک عزیز کو بھی لیتے گئے جو خود ایک ماہر بیروزگار تھا اور کچھ دنوں سے کسی نئے روزگار کی تلاش میں ہمارے پاس آیا ہوا تھا۔ ہم نے یہ سفر بالاقساط طے کیا یعنی پہلا پڑاؤ جہلم شہر میں کیاجہاں سے اگلی صبح روانہہوئے تو شگون یہ ہوا کہ جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ لاہور کی جانب سے ہمہ تن مستعدد کوّوں کا ایک لامتناہی سیلاب (آپ کو اب کہہ لیجئے) امنڈتا دکھائی دیا، یہ اتنی ساری مخلوق بھی اگرچہ کوئی انٹرویو دینے تو نہیں جا رہی تھی تاہم وہ جو کہتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی نظر آتا ہے ہمیں یہ مخلوق اپنی ہی طرح بے روزگار دکھائی دی اور ہم راہ بھر سوچتے یہی رہے کہ اتنی طویل
مسافت کے بعد اگر انہیں کسی مقام پرغذائے مرغن میسر بھی آتی ہے تو یہ بھلے لوگ وہیں اپناڈیرہ کیوں نہیں جما لیتے، صبح دما اس بے طرح جسمانی کسرت سے کیا لیتے ہیں، مگر ہماری یہ الجھن بالآخر اس احسا سسے رفع ہوئی کہ انسانی برادری میں بھی تو ضرورت سے زیادہ فعالیت کے شکار کچھ لوگ ہمارے دوست استاد کنٹریپیٹ کی طرح کے پائے ہی جاتے ہیں، سو ہم ان کے متعلق مشوش ہوں تو کاہے کو ہوں۔
سیا لکوٹ پہنچنے تو فرط عقیدت ہم قدم اُٹھاتے بھی جیسے جھجکتے دکھائی دئیے اس لئے کہ اس خاک بے نظیر کا سر زمیں پاک چپے چپے پر جو احسان ہے اس کی روشنی میں یہ سعادت شاید ہی کسی اور ’’تھان‘‘ کو حاصل ہوا اور پھر مستقبل کے قومی بکھیڑوں میں الجھی ایک اور شخصیت بھی تو اسی شہر نے علم و ادب کو بخشی تھی……… ہماری مراد جناب فیصؔ سے ہے۔
کالج کے احاطے میں قدم رکھا تو تعطیلات موسم گرما کے سبب ایک مستقل خاموشی اور آسمان تک پہنچے ہوئے تناور درختوں کی سبزی و خنکی نے ہمارا ’’ہوٹا‘‘ جیسے اور بھی ٹھنڈا کر دیا، ایسے میں اگر ہمارا دل ناداں کسی ٹیوب ویل کا انجن بنا ہوا تھا تو وہ محض اس خواہش کی شدت کا ایک کرشمہ بھی تھا جو بجاطور پر ہمیں اس شہر کے ہو رہنے کی رغیب دلا رہی تھی لیکن معاملہ یک طرفہ فیصلے تک محدود نہتھا سو ہونا وہی تھا جو اہل سیالوکٹ کرتیاور وہ اہل سیالکوٹ جن سے ہمارا سامنا ہوا، کالج کے پرنسپل تھے، جو شعبۂ سائنس کے استاد تھے۔ ہمیں گمان تھا کہ ہمارے انٹرویو کے لئے پورا بورڈ تشکیل دیا گیا ہو گا لیکن وہاں کی صورت حال
ہماری توقع یا خدشے کے سراسر منافی نکلی۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
جناب پرنسپل نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا، ہمارے کاغذات پر ایک بار پھر نگاہ ڈالی، ہم سے اردو ادب سے دلچسپی کی وجوہات کلمات نکاح کی طرح پوچھیں یہاں تک کہ ہم سے شاعری کے نزول دور دور کے متعلق سوالات کر ڈالے اور جب دیکھا کہ یہ حضرت کسی طرح ٹلنے والے نہیں ہیں تو انتہائی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ہمیں کہنے لگے۔
’’برخوردار! ہمیں آپ کی قابلیت اور کسی کالج سے متعلق ہونے کے لئے آپ کے وفورِشوق کا پورا پورا اعتراف ہے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ کالج کی انتظامیہ اخبارات میں اشتہار محض سرکار سے جان چھڑانے کے لئے ردِ عذر کے طور پر دیتی ہے ورنہ اصل صورتحال تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے مطلوبہ لیکچرار کا تقرراس اشتہار کی اشاعت سے بہت پہلے عمل میں آچکا ہے۔
بڑا دل خوش ہوا اے ہمنشیں کل جوش سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
ہمیں اپنے سیلیکٹ ہونے نہ ہونے کا احساس تو ہوا یا نہ ہوا، پرنسپل مذکور سے مل کر اتنی مُسرت ضرور ہوئی کہ مجبوروں کی اس دنیا میں کچھ مجبور ایسے بھی ہیں جو تمام تر جبر کے باوجود اپنے باطن پرمنافقت کا کوئی سایہ نہیں پڑنے دیتے۔
ہم لیکچرار ہوتے ہوتے تو رہ گئے لیکن چڑیا کے بوٹ (بچّے) کی طرح آشیاں
سے اس سمت میں پہلی پرواز کے بعد ہی پرانے ماحول میں اپنے آپ کو جیسے فالتو محسوس کرنے لگے اور اس احساس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ ہوتے ہوتے ہم نے اپنے موجودہ ماحول کو بدلنے کا کچھ ایسا ہی ارادہ کرلیا جس طرح کا عزم بعض سیاست دان سیاست سے باز رہنے کا کرتے ہیں تاہم ایسا کرنے میں فوری ہمت ہمیں اس لئے ہ ہونے پائی کہ ہم جہاں اتنے عرصے سے مقیم تھے، وہاں کچھ شخصیات ایسی بھی تھیں جن کی مقناطیسی نسبتیں تیاگنا ہمیں خاصا مشکل بھی نظر آیا۔ ان میں سے ایک صاحب تو سّید بادشاہ تھے جن کے متعلق ہم نے اپنی ایک نظم سٹاف نامہ لکھتے ہوئے کچھ اس طرح کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔
مشکل میں ہے ساتھی تو مسرت میں ہے ہمراہ
اخلاص ہی اخلاص ہے عباس علی شاہ
اور دوسرے صاحب ہمارے ایک بزرگ تھے…… باریش و باتمکنت کو جہاں سینے میں ایک دل دردمند رکھتے تھے، وہاں اپنی بتیسی کے درمیان زبانِ شیریں مقال جیسی نعمت بھی قدرت نے انہیں سونپ رکھی تھی اس پر مستزاد یہ کہ ہم جہاں ہمہ وقت ایک لامتناعی تخلیقی…… دھن کے اسیر رہتے وہاں موصوف کو اپنے ملنے جلنے والوں کے چہروں کی شکنیں محو کرنے کا لپکا تھا۔ یہی نہیں، اپنی پرائیویٹ زندگی میں قیام پاکستان کے دنوں سے ایک منہدم مسجد کا احیاء ان کا ایک اورکارنامہ بھی تھی، جسے انہوں نے تنہا تگ و تاز سے انجام دیا۔
اسی طرح کے اور بھی یقینا متعدد حضرات تھے جن سے بچھڑنا ہمیں سچ مچ اپنے
گوشت پوست سے جُدا ہونا لگتا تھا، لیکن اس دوران میں سکول کی فضا میں ہمیں ایک ایسے واقعہ سے دوچار ہونا پڑا جس کے ناطے ہمیں یہبات اچھی نہ لگی کہ ہم اپنے چیمپئن ہونے کا علاقائی اعزاز ہمیشہ کے لئے اپنے پاس دبائے رکھیں لہذا وہاں سے کوچ کے اسباب ازخود ہی نمایاں ہونے لگے۔
اور وہ واقعہ یہ تھا کہ ہم نے اواخر قیام کیدنوں میں کانجی ہاؤس میں دوسرے پڑاؤ کے بعد (محبی مولوی محمد نور الہٰی) حسب روایت ایک اور بھرے پرے گھر کی نگہبانی کے فرائض اپنے ذمے لے رکھے تھے، اس گھرکی مالکہ ایک بیوہ خاتون تھی جو اپنے باپ کے ہمراہ اپنے پیدائشی گھر ہی میں رہتی تھی اور حسن اتفاق یہ تھا کہ اسی خاتون کا اکلوتا بچہ ہمارے سکول میں کسبِ فیض کر رہا تھا جو خیر سے چھٹی جماعت میں پہنچا تو اسکی فیس معاف کرانا ہمارے عین فرائض اقامتی میں شمار ہونے لگا۔ جس میں کسی قضا کا بظاہر کوئی کھٹکا نہ تھا، ہم نے لڑکے کے نانا حضور سے ایک درخواست لکھوائی اور ہیڈماسٹر حور کے حوالے کر دی۔ اس تاکید کے ساتھ کہ لڑکا اس رعایت کا مستحق تو ہے ہی اس وجہ سے بھی قابلِ التفات ہے کہ آپ کے عملے کا ایک رُکن سکونت کے ناتے اس کے نانا کا ممنونِ احسان ہے اس پر ہیڈماسٹر صاحب نے بکمال دردمندی و معاملہ آشنائی ہماری ہاں میں
ہاں ملائی لیکن موقع جب فیس معافی کا آیا اور موصوف نے مذکورہ درخواست اڑھائی یا ساڑھے تین روپے فیس میں سے صرف ایک روپے کی معافی کے آرڈر بقلم خود ثبت فرماتے ہوئے مذکورہ درخواست (ہماری ممنونیت کو) ہمیں تھمائی تو…… خدا جانے وہ دراز قامت شخص اپنے ہاتھ میں لی اور ریزہ ریزہ ان کے سامنے پھیلا دی۔ یہ خفگی اگرچہ ہمیں مضحکہ خیز بھی لگی لیکن انسان بھی بقول منٹو عجیب شے ہے۔ اٹھانے پہ آئے تو پہاڑوں کا بوجھ سر پہ اٹھا لے اور نہ چاہے تو رائی کا بار سہارنے سے بھاگ کھڑا ہو۔ بہرحال ہم نے اس بدمزگی کے بعد فیصلہ وہی کیا جو بہت مدت بعد ابن انشا نے اپنے تخلص میں تھوڑے سے تصرف کے بعد کیا تھا۔
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا
اس لئے کہ ضروری نہ تھا کہ سکول میں ہونے والے آئندہ کسی حادثے کی محکمانہ فائل پر بھی ہمارے ہی نام نامی کا اندراج بحروف جلی کیا جاتا، چنانچہ ہم نے اسی ’’تُوڑ‘‘ میں اپنے ضلعی دفتر کا ایک چکر کاٹا لیکن نہ اس طرح جیسے بسلسلہ حصولِ اجازت برائے امتحان لگایا تھا اس لئے کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد گھر کی مرغی چاہے دال برابر تھی لیکن افسرانِ بالا ہم پر بلاشُبہ مہربان تھے اور یہ اسی موانست کا اثر تھا کہ جب لوٹے تو ہماری جیب میں ضلع کے ایک انتہائی گوشے میں واقع سکول میں تبادلے کے آرڈر موجود تھے جو ہماری رضامندی کے عین مطابق جاری کئے گئے تھے۔
جواب دیں