اسے وسائل کی کمی کہیے یا ہمارے دیہاتی بھائیوں کا مولائی پن کہ ان حضرات میں اکتفا کا جذبہ کچھ زیادہ ہی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ بجز اُن لوگوں کے جو ابتداء ہی سے کسی روشن مستقبل کی شاہراہ پر ہو لیتے ہیں ہمارے کصر دیہاتی بھائی اپنی معشت کا ایک چھوٹا سا جدی پُشتی ذریعہ اپنانے کے بعد باقاعدہ زندگی کا کچھ اس طرح آغاز کرتے ہیں کہ مسائل روز بروز بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں جب کہ وسائل زمین جنبد نہ جنبد گل محمد ہی رہتے ہیں، چنانچہ ہم کہ فرزند ہی دیہات کا تھے اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سروس بھی دیہاتی ماحول میں ہی ملی اپنی قسمت پر تھوڑے تھوڑے مکتفی بھی ہونے لگے لیکن جس طرح اہلِ تصوف کی نظر اپنے فانی ہونے پر ذرا کُھل کے پڑتی ہے تو اس تناظر میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہمیں بھی اپنی عارضی ملازمت کے کسی بھی وقت کُھنج جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو ہم بھی مذکورہ ماحول میں کافی حد تک فکراین وآں سے آزاد ہو چکے ہوتے لیکن اس آزادی پر پابندی کا جو تھوڑا بہت سایہ رہا اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم نے اپنی تنخواہ کے سہ ماہی ہچکولوں کے باوجود جو ں توں کر کے داخلے کی فیس یونیورسٹی کی نذر کر دی اس لئے کہ ایک سال ضائع ہونے کے بعد ہمیں اپنی ملازمت کے خوف کے ساتھ ساتھ وہ اجازت نامہ بھی کچھ کر گزرنے پر آمادہ کئے ہوئے تھا جسے ہم نے اپنے محکمے سے کچھ اس انداز میں حاصل کیا تھا جس طرح اولادِ نرینہ سے محروم بد نصیب والدین کسی درگاہ سے فیضیاب ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ضد کی ہے اور بات مگر خُو بُری نہیں

بھولے سے اُس نے سینکڑوں وعدے وفا کئے

فیس داخلہ بھیجی تو یونیورسٹی والے کچھ زیادہ ہی فعال ثابت ہوئے کہ ایک دن انہوں نے بذریعہ رجسٹرڈلیٹر ہمیں ہمارا بی اے کا رولنمبر بھی بھیج دیا تاہم ضروری نہ تھا کہ یونیورسٹی والوں کی فعالیت ہماری کسالت پربھی غالب آتی۔ اس لئے کہ ہمارے پاس اگر کچھ موجود تھا تو یونیورسٹی کی مرتب کردہ فہرستِ نصاب تھی۔ اس نصاب میں شامل کتب کے وجود کا ہمیں کسی نابالغ لڑکے کی منگیتر کی طرح کوئی علم نہ تھا تاہم وہ جو مصیبت کے وقت بچ نکلنے پر بڑی بوڑھیاں کہا کرتی ہیں۔

ہاں ہن ہاتھوں کا دیا کام آگیا ورنہ اس مشکل سے بچ نکلنے کی کوئی صورت تھی، بھلا ہمیں بھی اپنے ہاتھوں کے دئییکا کچھ اسی طرح کا سہارا حاصل تھا اور وہ ہاتھوں کا دیا ایک تو ہماری نگارشات تھیں جو آئے دن ہمارے خیالات کو صقیل رکھنے کے لئے معرضوجود میںآنے کو بے تاب رہتیں اور دوسرا یہ بھی تھا کہ جس طرح پہلے مذکور ہے ہم نے ایف اے تک کی تعلیم جو دے کر حاصل نہیں کی تھی بلکہ ۸۹۴ الف دے کر حاصل کی تھی خصوصاً انگریزی وغیرہ کہ کالج سے رخصت ہونے کے باوجود ہم انگریزی خوان انھوں میں کانے راجے ضرور متصور ہوتے تھے۔

ہم نے ابتداًء تو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی ٹھانی کہ جیسے بھی ہو فیس داخلے کی رقم یونیورسٹی کو معاف کئے دیتے ہیں اور امتحان میں بیٹھنے کے لئے کسی خوشگوار موسم کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں ایک اور حادثہ یہ ہوا کہ ہماری ڈیٹ شیٹ جیسے اہل۳ یونیورسٹی نے ہمارے محکمے کے مشورے سے تیار کی تھی کہ ادھر امتیان قریب آیا اور اُدھر شکول میں فصلِ ربیع کی چھٹیاں ہو گئیں جن کے بعد ظاہر ہے ہمیں اپنے گاؤں ہی کا دورہ کرنا تھا اور جس کی راہ میں وہ قصبہ بھی آتا تھا جسے تعلیمی اصطلاح میں امتحانی سینٹر کہا جاتا ہے اور ہمارا پڑاؤ وہاں اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہمارا سابقہ کالج اسی قصبے میں پڑتا تھا نیز بہت سارے ادیب اور عیر ادیب حصرات سے ابھی ہماری صاحب سلامت قائم تھی چنانچہ کوچۂ یار میں جائیں گے یہ ہم سے پہلے اٹھتے ہیں نقشِ قدم آج قدم سے پہلے تجدید تعلقات کی اس ضمنی کوشش میں جب ہم نے اپنا سفر بریک کیا تو سب سے پہلے جس شخص سے ہماری ملاقات ہوئی وہ ہمارا ایک سابق کلاس فیلو تھا، باہمی کیفیات کے ایکسچینج (Exchange) کے بعد موصوف کا رخ ہماری نالائقی کی جانب پھرا تو ہم باوجود کوشش کے اپنی وکالت میں ناکام رہے جس پر ہمیں ازخود نہ صرف یہ اقرار کرنا پڑا کہ ہم امتحان میں بیٹھنے سے دستبردار ہو رہے ہیں بلکہ ……انہیں اس صمن میں وہ دستاویزی ثبوت بھی دکھایا جسے عرف عام میں رولنمبر سلپ کہتے ہیں ہمارے اس اعتراف پر سب سے پہلے جو کاروائی انہوں نے کی یہ تھی کہ ہمارا رختِ سفر تانگے میں رکھوایا اور ہمیں وہاں لے چلے جہاں ہمارے دو چار اور دوست اسی قبیل کے رہتے تھے ان کے اس جبرکا حل یوں تو بڑا آسان تھا اور یہ تھا کہ ہم دوسرے روز تانگے میں رختِ سفر رکھتے اور بس سٹاپ پر پہنچ جاتے لیکن راستے میں انہوں نے ہمارے ساتھ ڈرامہ یہ کیا کہ بحوالہ پاکستان ٹائمز ہمیں یہ خبر سنا دی کہ آئندہ سال کووی امیدوار خواہ وہ یونیورسٹی کا ’’ساکے دار‘‘ ہی کیوں نہ ہو ( یعنی محکمہ تعلیم ہی کا فرد کیوں نہ ہو ) امتحان میں شریک نہ ہو سکے گا ہم نے یہ خبر سنی تو ہمارے قدموں تلے سے تانگہ جیسے دفعتاً نکل گیا۔

مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر،

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئیش

اس لئے کہ اب تو کشتیوں کے جلنے کے پس منظر میں کوئی طارق بھی موجود نظر نہیںآتا تھا۔ چنانچہ ہم نے اس نازک موقع پر یعنی تانگے میں بیٹھے بیٹھے جو فیصلہ کیا وہ یقینا تاریخی تھا کہ ہم نے امتحان میں بیٹھنے کا مصمّم سے بھی دو چُکے وَدھ پکا ارادہ کر لیا اور اپنے ساتھیوں کی نصابی کتب پر یکبارگی پل پڑے۔

داناؤں کا کہنا ہے کہ چاہے کسی کمتر سے کمتر آدمی کا دم اس کی ناک میں کر دو اس پر اسے اپنے اظہار خیا ل کا موقع بھی اگر فراہم کرو تو یہ بات تمہارے مشاہدے سے بعید نہیں کہ وہ کمترین شخص شاید تمہاری نظر میں دنیا کا بہترین مقر ثابت ہو۔

کچھ ایسا ہی حال اس گھڑی ہمارا تھا چنانچہ ہمارے نزدیک درمیان میں پڑے والے ایک دن اور ایک رات بیلنے میں دیا ہوا گنا ہو کر رہ گئے۔ اور جب ہم نے بررضا و رغبت پہلا پرچہ دیا اور کمرہ امتحان س یکنول صورت اپنے ساتھیوں کی منڈلی میں پہنچے تو دیکھنے والوں نے قرائن سے اندازہ کر لیا کہ ہمارا شیر ہاری نہیں دکھائے گا۔ اور ان کا یہ اندازہ صد فی صد درست نکلا کہ کووی بھی آزمائش ہو اس کا حجاب اترنے کی دیر ہوتی ہے اس کے بعد تو انسان خدا جانے کیا کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ لہذا ہمارے ہاتھوں بھی جو کچھ ہوا اس سے قطاً مختلف نہ تھا۔

نتیجہ نکلا تو یم اپنے قریبی ساتھیوں میں جیسے اشرفالمخلوقات کے درجے سے گر کر جنّاتی مخلوق ہو گئے تھے۔

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن

تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

( احمدمشتاق)

جو کوئی بھی ملتا ہمیں یوں حیرت سے دیکھتا گویا اپنے عہد کے یشر سارمان میں طتھے اس لئے کہ وہ ہماری نصابی قسم کی درونِ خانہ درسی ریا ضیت سے بخوبی آگاہ تھے۔

یہ معرکہ سر ہوا تو ہمیں بھی اپنا گریجویٹ ہونا کچھ کچھ محسوس ہونے لگا مثلاً سب سے پہلے تو ہم نے احسان بی اے کی طرح خط وکتابت میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس لامحالہ مبارک ڈگری کا اظہار موقع بے موقع بلکہ بے تحاشا شروع کر دیا، پھر اپنے نام کی پلیٹ…اپنے اس تازہ تعلیمی تخلص سمیت لکھوائی اور سب سے بڑھ کر یہ … کیہ اس لقب کی خوشی میں اپنی ادھ تنخواہ صرف کر کے اپنے وزٹنگ کارڈز بھی چھپوامارے، جنہیں بہت بعد میں ازکار رفتہ سمجھ کر اپنے شاگردوں میں یکبارگی تقسیم کر ڈالا۔

ہم بی اے ہو چکے تھے اور ایک ایسے ماحول میں تھے جہاں ……

؎ گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے

ہم مرزا خان ؔ سے ہر گز کم نہ تھے، اس لئے کہ کوسوں دور دور تک ( ہماری مراد علاقے کے دوسرے مڈل سکولوں سے ہے) ہمیں اپنے ’’سانویں ‘‘ کا کوئی جواں مرد نظر نہیں آتا تھا چنانچہ اسی خوشی نے جب وفور کی حد بھی پھلانگ ڈالی تو ہم نے بے سوچے سمجھے وہی کچھ کر ڈالا، جو کووی بھی نوجوان دھیدو کیا کرتا ہے اور یہ کاروائی ہمارا اپنی موجودہ ملازمت سے مستفعی ہونے اورکسی بڑے شہر کا رُخ کر کے صیح معنوں میں اپنی اہمیت جتلانے کا فیصلہ تھا اور فیصلہ ہم نے وہی کیا جو ان دنوں حکومتِ وقت نے کیا تھا۔ یعنی وہ کراچی سے راولپنڈی آ رہی تھی جس کی جرس پرجنوبی سمت سے ہی ہم نے بھی اپنی جائے قیام و طعام کو خیر آباد کہہ دیا۔ اور حکومت وقت کے پوری طرح راولپندی منتقل ہونے سے پہلے پہلے جائے مقصودہ پر پہنچ گئے ۔

مُجھے تھا دامِ اسیری نشیب دریا کا

اُچھل گیا میں کنایروں سے تُند خو ہو کر

سلیم شاہدؔ

ماجد صدیقی