اگلا دن ہماری تنخواہ داری کا دوسرا لیکن بالعمل ملازمت کا پہلا دن تھا سکول پہنچے تو جیسے ہمیں اپنے سکول کا زمانہ یاد آگیا (جسے گزرے ابھی بہ مشکل دو اڑھائی برس ہی ہوئے تھے) چنانچہ تمام تر احتیاط کے باوجود بار بار جی یہی چاہتا کہ چپکے سے اساتذہ کی ٹُکڑی سے نکل کر طلبا کے جمِ غفیر میں ضم ہو جائیں لیکن اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا تھا کہ ہم بغیر ظاہری علاماتِ بزرگی کے (ہماری مراد یقیناً داڑھی مونچھوں وغیرہ سے ہے) باقاعدہ استاد قرار دئے جا چکے تھے، چنانچہ اس طفلانہ احساس پر پہلے ہی روز قابو پانے کی بھرپور اور کسی قدر کامیاب کوشش کے بعد رجسٹر معلمین میں اپنے نام کے اندرا ج پر ہی مکتفی ہو بیٹھے۔

رئیس مکتب سے ہماری پہلی ملاقات بھی اُسی روز ہوئی اور موصوف نے ہمیں دیکھتے ہی ہم سے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا۔

’’آپ آگئے! کس گَیل آئے؟‘‘

ہم آتو گئے تھے لیکن آئے کس ’’ گَیل‘‘ تھے جملے کے اس حصے کا جواب ایک بچگانہ مسکراہٹ کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ تھا جس کا مختصر جواب ہمیں وقتی طور پر وہی سوجھا جو کسی بھی غیرحاضر دماغ فرد کو سوجھنا چاہیے یعنی یہی کہ ’’اپنے نصیبوں کے ہمراہ‘‘

ہمیں ہمارا ٹائم ٹیبل ملا جو ایک لحاظ سے سکول بھر کا نصف ٹائم ٹیبل تھا کہ سکول بھر میں دو ہی انگریزی ماسٹر تھے، ایک ہم اور ایک وہ جو ہم سے پہلے اس راجدھانی میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے اپنا ٹائم ٹیبل سنبھالا اور یکے بعد دیگرے گھنٹی کے بجنے کے ساتھ ساتھ ایک سے دوسرے اور دوسر ے سے تیسرے کمرے میں بلاتوقف گُھستے چلے گئے۔ لیکن ابھی ہم نے تیسرے کمرے میں قدم ہی ٹکایا ہو گا کہ یکایک رئیسِ مدرسہ کے کمرے میں ایک دھماکہ ہوا۔ یہ دھماکہ آج کے بعض دھماکوں سے تو قطعی مختلف تھا کہ اس سے متاثر ہونے والی کوئی عمارت یا کسی جلسے کے متعدد افراد نہ تھے، بلکہ صرف دو اشخاص تھے۔ ایک رئیسِ مدرسہ خود اور دوسرے ہمار ے زیادہ سگے رفیقِٰ کار، یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر صاحب اور وہ دھماکہ اُن گرما گرم الفاظ کا گرما گرم تبادلہ تھا۔ جو ان دونوں حضرات کے درمیان ہو رہا تھا، اس دھماکے کو پہلے تو ہم نے اپنے حق میں استقبالیہ دھماکہ گردانا اور یہی خیال کیا کہ رئیسِ مدرسہ’ گُربہ کشتن روز اوّل‘ کا بالقصد ریہرسل فرما رہے ہیں لیکن اگلا دن طلوع ہوا تو سکول بھر کی فضا ایک سنسنی سے دوچار تھی اور سنسنی اس امر سے پیدا ہوئی تھی کہ رئیسِ مدرسہ نے انگریزی ماسٹر صاحب سے پچھلے روز کی تکرار سے پیداشدہ تکان اتارنے کے لئے نہ صرف یہ کہ درخواست رخصت ارسال کی بلکہ استادی ٔعُظمیٰ ہی کو اپنی ذات سے نوچ پھینکا یعنی اپنا استعفیٰ بھجوا دیا جسے منطقی طور پر تو متعلقہ حکامِبالا تک بھجوا دیا جانا چاہتے تھے لیکن سٹاف کے کچھ بزرگ اور صاحبِاولاد اساتذہ نے کچھ دیر تک سر جوڑے رکھنے کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ کچھ حضرات پر مشتمل ایک وفد ہیڈماسٹر صاحب کے پاس جائے اور انہیں اِس انتہائی اقدام سے باز رہنے کی استدعا کرے۔

یوں تو اس وفد کو سکول کے ابتدائی اوقات ہی میں اپنے مشن پر رخصت ہو جانا چاہئے تھا لیکن ہ وفد بہ ہزار دِقّت، عین بارہ بجے سکول سے روانہ ہوا جس کا اصل سبب اب تک آپ کی سمجھ میں آ جانا چاہئے…… کہ اس وفد میں ان صاحب کا ہونا از بس لازم تھا جن کی نادانی یا نوجوانی کے باعث یہ ساری بدمزگی پیدا ہوئی تھی اور یہ صاحب وہی ناعقبت اندیش نوجوان تھے جنہوں نے اپنے افسرِمجاز کے سامنے لب کشائی جیسے جُرم کا ارتکاب کیا تھا اور اب اس وفد کی تیاری کا انحصار ان ہی صاحب کے پچھلے روزکا غصہ تھوک دینے پر تھا، جو انہوں نے اپنے تمام تر زورِ شباب کے باوجود بالآخر برادری کی دوچار گھنٹوں کی تکرار کے بعد تھوک ہی دیا۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے ۔۔۔۔۔ بے مزہ نہ ہوا

وفد اپنے مشن پر نکلا تو ہم تو جیسے سحرزدہ سے ہو گئے لیکن اِدھر اُدھر سے کافی دیر کے رُکے ہوئے قہقہے بلند ہوتے دیکھ کر ہمیں کچھ تسلی بھی ہونے لگی کہ ہو نہ ہو یہ اونٹ اسی کروٹ بیٹھتا آرہا ہو گا چنانچہ استفسار پر بھی کُھلا یہی کہ اس طرح کے واقعات ادارہ ہٰذا میں آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لہٰذا اس پر متعجب ہونے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔

روٹھے پِیا تو من کر آگئے، لیکن ہمارا اپنا منوا کچھ کچھ گڑ بڑانے لگا اور ہمہ دم خیال یہی رہنے لگا کہ اگر انہی سربراہِ ادارہ کے ساتھ گزر بسر کرنی ہے تو ملازمت کے جملہ آدابِکورنش کو ہم غٹاغٹ کیسے نوشِ جان کر سکیں گے لیکن ہوا یہ کہ… حضرت کچھ کچھ ہم مذاق نکلے یعنی ایک جانب جہاں وہ اپنی پہلوانانہ کسرتوں کے باعث دیہہ بھر میں مشہور تھے وہاں دوسری جانب اندر سے اُسی قدر ملائم اور گداز ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے تھے جس کا ایک ثبوت تو انگریزی ماسٹر صاحب سے تکرار کے باعث ان کا ادارہ بھر سے روٹھ جانے کے بعد فوراً ’’من‘‘ جانا تھا، دوسرا ثبوت یہ سامنے آیا کہ خیر سے فنِ شعر گوئی سے بُری طرح وابستہ نکلے۔ اگرچہ ایسا تو کم ہی ہوا کہ خلافِ روایت ایک ’’باس‘‘ اپنے ادنیٰ ماتحت کو اپنی تخلیقات سے نوازتا لیکن یہ فرمائش گاہ گاہ ضرور ہوتی رہی کہ ہم انہیں اپنا کلام سنائیں بلکہ اگر ہو سکے تو کسی طشتری میں رکھ کر پیش کریں لیکن اس طرح کا کوئی نا خوشگوار واقعہ اس لئے نہ ہونے پایا کہ ہمیں اردو شاعری سے گو برابر کی نسبت تھی لیکن زیادہ واویلا ہم نے اپنی پنجابی شاعری ہی کا کر رکھا تھا اور پنجابی زبان سے اُنہیں کداِس لئے تھی کہ ان کا جملہ ماتحت عملہ اگر کسی اعتبار سے اہلِ زبان ہو سکتا تھا تو وہ اِسی ایک زبان میں تھا۔ ہر چند موصوف بھی لکھنو یا دلی کی دُھلی دُھلائی اردو سے پیدائشی محروم تھے کہ انبالہ کایاکرنال کا جم پل تھے، تاہم اپنی اردوئے معلیٰ کو پنجابی زبان پر دن میں درجنوں بار ترجیح دیتے نظر آتے اور یہی حسنِاتفاق ہمارے حق میں باعثِرحمت ثابت ہو اکہ ہم بحیثیت شاعر اگرچہ ان کے دل کے قریب رہے لیکن ہمارا فن کسی بھی طرح ان پر کھلنے نہ پایا ورنہ یہ بات حدِامکان کے عین اندر تھی کہ اِس میدان میں ان کا اور ہمارا بھی چھوٹا موٹا دنگل ضرور ہو جاتا بلکہ خدا کا شکر ہے کہ ایک بار بہت بعد میں ہوتے ہوتے رہ گیا جس کا ذکر اگر ضروری ہوا تو آئندہ کیا جائے گا۔

ماجد صدیقی