لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں

یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں

یہ شعر اگرچہ ہم نے بہت بعد میں کہا تاہم اس سے ضرور کھلتا ہے کہ کسی احساس کے بیج سے پودا بننے تک خدا جانے کتنے مرحلے آتے ہیں۔

پہروں آنکھیں نم رہیں دل خوں ہوا

جب کہیں اک شعرِ تر موزوں ہوا

اور جو شعر تر بلکہ شعرہائے تر ہم نے موزوں کئے تھے ’’عدم پلاننگ‘‘ کی وجہ سے ان کی تعداد کچھ اس قدر ہو گئی تھی کہ انہیں محض بیاض کے صفحوں میں ٹھونسے رکھنا خدا جانے ہمیں کیوں گھلنے لگا۔ اس کا ایک سبب تو پیرا نہ سوچ کے مطابق وہی تھا۔؎

آں را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک

کہ ہم دنیاوی حساب میں تو عدم توازن کے شکار تھے ہی تخلیقی حساب میں اپنا دامن اس خیال سے صاف رکھناچاہتے تھے کہ جو تخلیقی سفر ہم نے کافی کچھ سوچنے کے بعد شروع کر رکھا تھا کسی بندش یا رکاوٹ کا شکار نہ ہوتا اور کچھ یہ بھی تھا کہ اس میں تھوڑا بہت ہاتھ

ہمارے شوق فزوں کا بھی تھا اس لئے کہ ہم ابھی بچپن کی حدیں صحیح طرح نہیں پھلانگ پائے تھے، جبہمیں اس بات کاعلم ہوا کہ ہمارے گاؤں بلکہ ہمارے پڑوس کا ایک بزرگ شعر کہتا ہے اور یہ کہ پمفلٹوں کی صورت میں انہیں چھپوا کر مدرسوں میں بیچتا اور ثواب دارین بھی حاصل کرتا ہے تو ہم نے اس مرد بے مثال دبے عدیل سے خدا جانے کتنے ہی ننھے منے انٹرویو اس ننھی منی عمر ہی میں کر ڈالے اور ثواب دارین سے قطع نظر جن کی روایت کو ہم نے پہلی بار ان دنوں آگے بڑھایا جب ہم بسلسلہ ملازمت سٹیشن نمبر ایک پر خیمہ زن تھے۔

ہم نے اپنی کسی داخلی اپج سے متاثر ہو کر ایک نظم بعنوان سید الشہداء بزبان پنجابی لکھی اور بجائے کسی اخبار یا رسالے کو بھیجنے کے اپنے خرچ پر اسے اس لئے چھپوا ڈالا کہ ایک تو اس میں ہمارے دیرینہ شوق فزوں کی تکمیل مضمر تھی، دوسرا ہماری نظر میں یہ کارِخیر کسبِ سعادت کے مترادف بھی تھا مگر وائے قسمت کہ ہماری تصنیف اس محدود ماحول میں ہمارے تخلص کی ہیئت مرکبی کے باعث ان دنوں اس پذیرائی سے ہمکنار ہوئی جس کی وہ مستحق تھی۔ تاہم اپنی باقاعدہ تخلیقات میں سے اس پہلی تخلیق کی اشاعت کی عدم پذیرائی سے ہم چنداں بد دل بھی نہ ہوئے اس لئے کہ ہمارینزدیک مذہب جس صراط مستقیمکا نام ہے صالح ادب بھی اسی دریاکے معاون ندی نالوں کی ایک اکائی ہے اور یہ ندی نالے ہمارے فکر و وجدان کے پہلو سے مسلسل پھوٹ رہے تھے چنانچہ وہ سارا کچھ جو ہم نے کسی مذہبی عنوان کے علاوہ کہہ رکھا تھا ہمیں برابر اس امر کے لئے بے چین رکھتا کہ جیسے بھی ہو؎

ظاہر نہیں کسی پر تجھ لعل کی حقیقت

واقف ہوا ہوں اس سوں میں جوہری کی مانند

یہ متاع معرضِ اشاعت میں ضرور آنی چاہئے جس کے لئے مُنّو بھائی سے لے کر اشفاق احمد تک یعنی پنڈی سے لے کر لاہور تک ہم نے متعدد دروازوں پر دستک دی اور جس کے جواب میں ہمیں اپنی ہی اس تخلیق کی گونج سنائی دیتی رہی۔

الم قرض خواہ ہے

کہ دروازۂ دل پہ دستک دئیے جا رہا ہے

نہیں اس اپنے مگر

آس کی ایک بھی پھوٹی کوڑی کہ اس کو ادا ہو،

مکرتا ہوں اپنے ہی ہونے سے آخر

بدل کر کچھ اپنی ہی آواز اُس کو

بڑے نرم لہجے میں کہنے لگا ہوں!

’’کسی کام سے وہ تو باہر گئے ہیں!‘‘

ان حضرات میں سے مُنّو بھائی کا ذکر تو ہم نے محض اس لئے کیا ہے کہ وہ ان دنوں ہمارے ادبی استغاثے کے بلامعاوضہ وکیل تھے اور ؎

ہم نیک و بد حضُور کو سمجھائے دیتے ہیں

قسم کے مشوروں سے لاریب ہمیں نوازتے رہتے تھے۔ البتہ جناب تلقین شاہ سے ہمارا ’’ڈیل ‘‘ اس لئے ہوتے ہوتے رہ گیا کہ درمیان میں معاملہ مذکورہ بالا نظموالا ہی کود

پڑا یعنی ان کا ادارہ ’’داستان گو ‘‘ ان ہی روائتی حالات کا شکار ہو گیا جسے منفی مکتب فکر کے داعی حضرات زواط پذیر ہونا لہتے ہیں تاہم اس سلسلے کی خط و کتابت آج بھی کچھ تصویر ہائے بتاں کے ساتھ ( لفظ بتاں لغوی معنوں میں استعمال جان لیجیے) ہمارے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ اب کہ ہم اپنی ملازمت کے درجہ چہارم کے کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے تھے جہاں ہماری تخلیقات میں برابر کا اضافہ ہو رہا تھا وہاں وہ شوقِ فزوں کچھ اور بھی شدت اختیار کرنے لگا تھا اور ارادے کچھ اس طرح کے ہو چلے تھے؎

مان لیتے ہیں کہ دیوارِ قفس سخت سہی

سر تو تھا پھوڑنے کو مرغِ گرفتار کے پاس

لہذا ہم کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے جب ہماری یہ جنوں سامانی اپنا روائتی رنگ دکھلا سکتی اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ہم جنہیں ایم اے کی دگری لئے بھی ڈیڑھ سال ہونے کو آیا تھا اور تاحال مبلغ ننانوے روپے بارہ آنے (دوگنے جن کے ایک سو ننانوے روپے اٹھ آنے ہوتے ہیں)مشاہرہ پا رہے تھے محکمے کے ’’تاؤلے پن‘‘ کی وجہ سے اپنی تعلیمی ترقی کے دن سے پونے دو سو روپیہ مشاہرہ کے اچانک مستحق قرار دے دئیے گئے جس کا ریاضیانہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں پونے دو ہزار روپوں جیسی خطیر بلکہ خطرناک رقم کا بارگراں یک بارگی اٹھانا پڑ گیا جس کا کچھ حصہ تو بجا طور پر ہمارے گزشتہ زخموں کے اندمال کے لئے درکار تھا کہ؎

نسبتؔ ہمیں بی حضرت غالب سے کچھ تو تھی

چنانچہ رقم کے اس حصے کو ہم نے بکما

ل سرخروئی برتا اور حق بات یہ ہے کہ خاصے خوش اوقات ہوئے لیکن اس رقم کا وہ حصہ جو اس سماجی فرض کی ادائیگی کے بعد بھی بچ رہا ہمیں کچھ اس طرح کا کالا دھن محسوس ہونے لگا جیسے

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

چنانچہ اس نازک موقع پر ہمارے شوق بے لگام نے عالم خوابیدگی سے اچانک کروٹ لی تو اس رقم کے مصرفکا مکمل نقشہ آناً فاناً ہمارے ذہن میں لہرا گیا ہم نے اپنے شعری بستہ باندھا، راولپنڈی پہنچے، منو بھائی سے اپنی پہلی باقاعدہ تصنیف ’’وتھاں ناپدے ہتھ‘‘کا سرورس بنوایا، پریس کا رخ کیا اور واپس اس دن پلٹے جباپنی گزشتہ فروگزاشتوں کا نصف بوجھ دو تین بوریوں کی صورت میں ہمارے ناتواں کندھوں پر تھا۔

ہماری پنجابی غزلوں کا سرمایہ اپنی سزا کو پہنچ چکا تھا لیکن ہمیں یہ سرمایہ اس لئے بے قرار رکھنے لگا کہ اس کی فزیکل حیثیت ان نوٹوں سے ہزارہا گنا زیادہ تھی جنہیں ہم لٹنے کے ڈر سے اپنے کسی سیف میں نہیں تو اپنے سرہانے دبا کر بھی مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔ ہرچند اس متاع کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہتھا۔ لیکن ہمارا فنی اعتقاد…… اب تجارت کی حدود میں آچکا تھا لہذا…… ذہن ہمہ دم اسی طرح کے منصوبوں کی تیاری میں لگا رہتا…… کہ انہیں نکالیں تو کس کے ہاتھ جس کا آسان اور مہذبانہ حل ہمیں ایک ہی نظر آیا کہ جو بھی ملنے نہ ملنے والا شخص ہمیں ملتا ہم اپنی اس تصنیف کا ایک آدھ نسخہ اس کی نذر کرتے اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے اسے بنگاہِ امتنان دیکھتے اور کچھ اس طرح کی غیرمحسوس التجا کے ساتھ اس سے رخصت ہوتے۔ جیسے کوئی مشفق باپ اپنی کسی بدنصیب نوبیاہتا بیٹی کے مستقبل کی

خاطرادھر والوں کے سامنے اپنی انا کا طّرہ سرنگوں کرتا ہے۔

اس مقام پر ہمیں تجارت کا الف، بے تو کیا آتا کہ اگر کوئی نسخہ کسی کی سفارش سے اس کے کسی جاننے والے کو بھیجا بھی گیا تو بیشتر یہی ہوا کہ وہ نسخہ ہمیں ڈاک خرچ کی ’’ڈز‘‘ دیتا ہوا پھر ہماری دہلیز پر پہنچ جاتا رہا۔ اس طرح کے نسخوں کی فروخت کا صحیح اکاؤنٹ تو ہمارے پاس نہیں ہے، ویسے اندازہ یہ ہے کہ فیاضیٔ دوراں کے ہاتھوں ہماری تنخواہ میں جو ’’بڑھوتری‘‘ غیر متوقع طور پر ہو گئی تھی اس کا پانچ دس فیصد بعد میں بھی ہماری تنحواہ سے منہا ہوتا رہا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اس محنت سے قطع نظر جو ہم نے اس نسخے کی تیاری تک کی تھی، ہمارا جتنا کچھ خرچ اٹھا چند اخبارات کے تبصروں کی صورت میں اس کا معاوضہ ہمیں ضرور مل گیا۔ جسے ہم نے اس نکتہ نظرسے اہم گردانا کہ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے میں بھی آخر آدمی خرچ تو کیا کچھ نہیں کرتا لیکن جواباً اسے کاغذ کا ایک پھڑکا ہی تو میسر آتا ہے اور سچ یہ ہے کہیہ توشۂ آخرت ہمارے لئے موردین انیف تھا کہ شاعری برادری میں بیٹھ کر ابہم گھٹنوں اور کمر کے گرددیہاتیوں والا صافہ ضرور باندھ سکتے تھے جسے شاید نفسیات کی زبان میں خوداعتمادی بھی کہتے ہیں۔؎

ہاں ہمیں ماجد ؔجنم لینا پڑا اک اور بھی

یوں تو جینے کا سلیقہ یہ ہمیں آیا نہیں

ماجد صدیقی