کانجی ہاؤس کے دونوں یونٹ (ہماری مراد اس کے اجزائے ترکیبی سے ہے) ایک ایک ذی نفس سے آباد تھے۔ ایک کمرے میں ہم تھے اور دوسرے میں ہمارے ہم ذوق اور میزبان ماسٹر صاحب ۔۔۔۔ ماسٹر صاحب کے کمرے سے تو پھر کسی وقت پھنکارنے ، کبھی کھنگارنے( یعنی کھا نسنے اور دھواں نگلنے اگلنے) اور گاہ گاہ زیرِلب گنگنانے یا بڑبڑانے کی صدا اُبھرتی مگر ہم کہ تازہ تازہ اسیرِ کانجی ہاؤس ہوئے تھے اپنے ماضی و مستقبل کو اپنے کندھوں پہ بٹھائے اپنی اسیری کی پہلے دن کی تلخی اور ساتھ کے کمرے سے رات کی رانی کی طرح پھیلے ہوئے گیلی لکڑیوں کے گیلے دھوئیں کی کڑواہت میں سرتاپا غرق اس امر کے منتظر تھے کہ کب ماسٹر صاحب اپنے فرائض غیر منصبی سے فارغ ہوں اور کب بقولِعدم اس مرگ آسا مصیبت سے نجات ملے۔

کوئی پھول چٹکا ؤ‘ کوئی جام کھنکاؤ

مستقل خموشی تو ‘موت کا علامت ہے

لیکن جس طرح دیہاتوں میں بچے کی پیدائش کے وقت دایہ ۔۔۔۔۔زچہ کے کمرے میں گھس کر ایک طرح سے اس کمرے کی الاٹمنٹ کی بجائے اس کا کلیم داخل کرا بیٹھتی ہے اور باہر والے کان لگائے لمحے لمحے کے دل کی دھڑکن سنا کرتے ہیں کُچھ ایسا ہی رشتہ اس سمے ہمارے اور ماسٹر صاحب کے درمیان استوار تھا دونوں کمروں کا وسطی دروازہ کسی نوبیاہتا دلہن کے ہونٹوں کی طرح بھنچا ہوا تھا شاید اس لئے کہ ماسٹر صاحب اپنی یکسوئی میں کسی قسم کی مداخلت کے متحمل نہ تھے البتہ جس طرح پہلے مذکور ہے ہمارے ساتھ ان کا نشریاتی رابطہ برابر بحال تھا یعنی گیلی لکڑیوں اور اُپلوں کا لیس دار دھواں بڑی روانی سے ہم تک پہنچ رہا تھا جو اِس بات کی علامت تھا کہ ماسٹر صاحب ہنوز فرائضِمیزبانی سے فارغ نہیں ہیں لیکن جب پورے دو گھنٹے گزرنے کو آئے تو ماسٹر صاحب نے اچانک اپنی کامیابی پر بلغمی مزاج کا ایک زوردار کھنگورا داغا اور کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے اپنے اطاق سے جو ب بہ یک وقت کچن ،سٹور روم،غسل خانہ اورجانے اور کیا کیا کُچھ تھا براآمد ہوئے اور چھوٹتے ہی کہنے لگے ’’اب ذرا تھوڑی سی آکسیجن نہ کھا لی جائے۔‘‘

ہم نے اُن کے اِس طبی اور سائنسی جملے کا مفہوم کسی بھی بد حواس آدمی کی طرح یہی لیا کہ ماسٹر صاحب غالباً سیر کی فرمائش کر رہے ہیں۔جو ازروئے اتفاق صد فیصد دُرست نکلا (ورنہ آکسیجن کا نام وہ اپنی شیریں سخنی کو بھی دے سکتے تھے )ہم نے ان کی فرمائش بہ دل وجان پھپھڑوں کی حد تک قبول کی اور آکسیجن کھانے چل نکلے۔

کانجی ہاؤس سے نکلے تو ہم پر سراسر اُسی احساسِ نجات کے ترشح کا غلبہ تھا جو کسی بھی ذی نفس کو کسی ایسی جگہ سے نکلنے پر ہونا چاہئے لیکن ہماری نسبت یہ احساس ماسٹر صاحب پر کُچھ زیادہ ہی غالب نظر آیا۔ گاؤں کے جوار ہی میں ایک طول طویل کُھدر تھی۔ ماسٹر صاحب آکسیجن کے اس خوان کو سامنے پا کر کُچھ اس طرح مچلے کہ انہوں نے تو جیسے نوخیز بچھڑوں کو بھی مات کر ڈالا بلکہ دوڑتے کودتے پھلانگتے ہمیں کُچھ اس طرح گھسیٹنے لگے جیسے وہ سچ مچ کے غزال تھے اور ہم ایک تھکے ماندے بکروٹے جنہیں ان کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا یہ تو اچھا ہوا کہ غروبِآفتاب کا وقت قریب تھا ورنہ خدا جانے وہ اس ادائے غزالی کی اور کیا کیا باریکیاں ہمیں سمجھاتے ۔

سیر سے لوٹے تو ماسٹر صاحب کے اعصاب میں اگر چہ ٹھہراؤ تھا لیکن زبان کی رفتار میں وہی برق رفتاری جو سیر کو جاتے ہوئے اُن کی ٹانگوں میں یکایک عود کر آئی تھی ۔ حاصلِ کلام یہ کہ وہ ہمیں راستہ بھر نکاح کے کلموں کی طرح یہی بات رٹاتے آئے کہ ہماری صحت کی خرابی کا اصل باعث بہر صورت ہماری تساہل پسندی ہے۔ جسے انہوں نے پہلی ہی نظرمیں بھانپ لیا تھا اور جسے و ہ چند ہی ایّام میں دور کر دینا چاہتے تھے اس دوران ہماری زبان پر ایک سوال آتے آتے جانے کیوں رُک رُک جاتا رہا کہ اگر ہماری خرابیٔ صحت کا باعث ہماری سہل انگاری ہے تو آپ کے چہرے کا خاکستری پن کس کج ادائی کا کرشمہ ہے اور اچھا ہوا کہ ہم نے یہ سوال ان سے نہ ہی کیا ورنہ اُن کی تند خوئی اور تنک مزاجی کی جو جو خبریں ہمیں بعد میں ملیں وہ اگر صحیح تھیں تو ہم نے اپنی ملازمت کی سہاگ رات کانجی ہاؤس کی بجائے یقینا کسی مسجد میں بسر ان کرنی تھی اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس لیے کہ ہم نے تھوڑی دوراندیشی سے کام لے لیا۔

کُھدروں سے ہو کر کانجی ہاؤس پہنچے تو ماسٹر صاحب کی اشتہا جس قدر چمک اُٹھی تھی کھانے کے بارے میں ہمارے عزائم اسی قدر پست ہو چکے تھے کانجی ہاؤس کے صحن میں داخل ہوئے تو اندھیرے کی مسیں بھیگ رہی تھیں کمروں کے قریب پہنچے تو ماسٹر صاحب کا ایک سعاد مند شاگرد اپنی بغل میں چپاتیاں دبائے کانجی ہاؤس کے گوشے میں درود شریف پڑھتا دکھائی دیا۔ جس کے فرائض میں نہ صرف روٹیاں لانا بلکہ ہمارے بستر بچھانا ،ہمارے ہاتھ دھلانا،ہمیں کھانا کھلانا اور برتن وغیرہ دھونا جیسے سارے مراحل بہ یک وقت شامل تھے ہم نے اس طفلک کی جانِ ناتواں پر یہ بارِ گراں دیکھا تو ماسٹرصاحب سے اس زیادتی پر زیر لب احتجاج بھی کیا جس کا مختصر اورجامع جواب انہوں نے نہایت استغناء سے وہی دیا جب مدّتوں سے رائج ہے۔ یعنی یہ کہ

ہر کہ خدمت کراُو مخدوم شُد

ظاہر ہے اُن کے اس متّبحرانہ جواب پر ہمیں بہر حال خاموش ہو جانا چاہئے تھا۔ سو ہم ہو گئے جہاں تک کڑھی کی پُخت و خورش کا تعلق تھا اس کے جملہ حقوق ماسٹر صاحب ہی کے نام جانیے، اس لئے کہ چھٹانک بھر سونف اور چھٹانک بھرا جوائن میں دو سیر پانی پورے یکصدوبِست منٹ تک ایک خاص احساسِ ریاضت سے اُبالا گیا تھا جس کے اوپر تلافیٔ مافات کے طور پر گھی کی ایک ہلکی سی تہہ بھی جما دی گئی تھی ہمارے لئے مہینے بھر کا یہ راشن ایک ہی شام ختم کرنا بالفعل ناممکن تھا، لہذا یہ کار مرداں ہم نے انہیں ہی سونپا اور شیرینیٔ کام و دہن ( جسے عرفِ عام میں لعابِ دہن اور سلیوا Sliva وغیرہ بھی کہتے ہیں) کی مدد سے ایک آدھ چپاتی نوشِ جان کر ڈالی پہلے سے بچھے ہوئے بستر پر دراز ہو کر کچی پکی نیند کے مزے لینے لگے اور بقول ریاض خیرآبادی‘ جوں توں کر کے آنے والی صبح کی دہلیز تک پہنچ گئے۔

صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو میکدے سے تو ‘ دنیا بدل گئی

ماجد صدیقی