ہمارے ہمزبان رفیقِ کار یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر ہمارے علاوہ وہ دوسرا ستون تھے جن کے دم سے انگریزی زبان کے مستقبل کی عمارت سکول میں قائم تھی، تعلیم ہم دونوں کی ہم وزن ہی تھی کہ وہ بھی ایف اے پاس تھے اور ہم بھی۔ لیکن تفاوت ہم دونوں میں یہ تھی کہ وہ زبان کے چٹک چٹک، چال ڈھال میں سیماب صفت اور بود باش میں فرد تھے کہ تنہا باشی کے کرانک مریض تھے جبکہ ہماری زبان کا سارا زورِلِخت پَڑھت پر ہی صرف ہو جایا کرتا تھا، چال ڈھال میں انکساری ہم نے تقاضائے گردو پیش کے تحت اختیار کر رکھی تھی۔ اور بودوباش کا احوال آپ پہلے ہی جان چکے ہیں۔ کہ کسی ذی روح کے ساتھ رہنا ہمیں بالطبع پسند تھا۔ اور یہ طبعی تفاوت اگرچہ ہمارا نجی معاملہ تھا جسے ہمارے حالاتِ ملازمت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہوایوں کہ ہم دونوں میں کبھی ایکا نہ ہو سکا۔ جو کسی بھی اقلیتی گروپ کا خاصا ہوتا ہے۔ اور اکثریتی گروپ کو ہمیشہ کَھلتا ہے۔
نئے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آمد پر جہاں اور بہت سارے کرشمے جنم لینے لگے وہاں ایک عجوبہ یہ بھی ہوا کہ ہم اور ہماری نوعّیت کے دوسرے واحد رفیقِکار ایک مقام پر اچانک باہم شیر وشکر ہو گئے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ہم سے تو بدگمان تھے ہی (کہ حصولِ اجازتِ امتحان کے سلسلے میں فریقین کے دلوں میں بہت سارے وسوسے جاگزیں ہو گئے تھے) وہ ہمارے جڑواں رفیقِ کار کو بھی کبیدہ خاطر کر بیٹھے۔ جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ انہوں نے بھی سکول میں ہماری موجودگی کا اعتراف از خود ہی کر لیا۔
سالانہ امتحا نات قریب تھے اور ہمارے رفیقِ ثانی کہ ایک عرصے سے ہیڈ ماسٹر کی ’’ گُڈ بُکس ‘‘ میں چلے آ رہے تھے اور تازہ تازہ ’’بَیڈبُبکس‘‘ میں آئے تھے، راز ہائے درونِ خانہ سے خاصے آگاہ تھے۔ ایک دن ہمارے پاس لال بھبھوکا ہو کر آئے تو پنجابی فلمی بڑھک کے انداز میں کہنے لگے۔
’’یار ماجد ! اس ہیدڈماسٹر نے اپنے آپ کو سمجھ کیا رکھا ہے ؟‘‘
ہم نے بکمال متانت عرض کیا۔ ’’ہیڈ ماسٹر‘‘ جس پر وہ اور بھی سیخ پا ہوئے اورسرگوشی کے انداز میں کہنے لگے ۔’’تمہیں معلوم ہے کہ اِس نے چھٹی اور ساتویں کے پرچے کہاں سے مرتب کرائے ہیں۔‘‘ہم نے کہا ’’آپ سے … ‘‘تو وہ سپند وار اُچھلے اور کسی قدر رازداری کے ساتھ ہم پہ انکشاف یہ کیا کہ پرچے کسی باہر کے آدمی سے مرتب کرائے گئے ہیں، ہم نے اس صریح دھاندلی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے ’’ یہ کام اب آپ کا ہے کہ اس بد گمانی کا مزہ اسے چکھاؤ۔ میرا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔ ‘‘ ہم نے پہلے تو ان کا غصہ فرو کرنے کی بہتیری کوشش کی اس لئے کہ ہم دونوں افراد محکمے کے فرزند تو تھے مگر تھے دونوں کے دونوں سوتیلے کہ عارضی ملازمت کا ٹیکہ ہمارے ماتھوں پہ ابتدائے ملازمت ہی سے چسپاں تھا اور محکمے کو یہ اختیارکُلی طور پر حاصل تھا کہ وہ جب چاہتا ہمارے جوتے الٹا دیتا اور ہمیں اپنی فرمانروائی کی سرحدوں سے دیس نکالا دے دیتا۔ علاوہ ازیں کسی پنشن یافتہ شخص سے بھی (بشرطیکہ وہ حضرتِ غالب نہ ہوتے ) قواعدِ ملازمت کا خلاصہ پوچھا جاتا تو متوقع جواب یہی ہو سکتا تھا کہ دورانِ ملازمت سربراہِ ادارہ سے اختلاف ہو جانا اوربات ہوتی ہے۔ لیکن اس اختلاف کو بنیاد بنا کر اس کے مدّمقابل آ جانا صریحاً ذہنی عدم بلوغت کا فتور ہوا کرتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ہمیں ان دنوں خدا جانے اتنی دانائی کہاں سے میسر آ گئی تھی کہ عالمِ نوعمری کے باوصف ہم نے قدرے تحمل سے کام لیا اور بسلامتی فکر ایک ایسی راہ نکالی جو بہت بعد کے کامیاب سیاسی حلقوں کے منشور کے عین مطابق نکلی۔
ہیڈ ماسٹر موصوف کے عدم التفات سے ہمیں اپنے مستقبل کی گاڑی پھنستی ضرور نظر آئی لیکن نہ اس قدر کہ ’’ انو کی‘‘ کی طرح ہم بہ نیّتِرُسوائی محمد علی کلے کو سرِ عام زِچ کرنے پر تُل جاتے اور معاملہ اُن سے الٹی سیدھی ٹکر لینے تک پہنچ جاتا ۔ تاہم جب اپنے رفیقِ ثانی کا اصرار اور ہمارا انکار کسی خاص مقام پر آن کے بے تفاوت ہو گیا تو طے یہ پایا مگر طے کیا پانا تھا۔
کیاِپِدّی اور کیاپِدّی کا شوربا
ہوا یہ کہ جب سکول کا سالانہ امتحان شروع ہوا اور دن انگریزی کے پرچے کا آیا تو ہم دونوں کی مشکل حل ہوتی دکھائی دی جسے محض انتقامی جذبے ہی کی نہیں بلکہ کسی قدر طفلانہ شرارت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔
لڑکوں میں باہر سے برآمد شدہ پرچہ بٹ چکا تو ہماری آنکھیں چار ہوئیں اور اس کارروائی کا وقت آن پہنچا جسے ہم نے باہمی اشتراک سے مرتب کیا تھا۔ امتحان میں شریک پہلا طالب علم جسے پرچہ ٔسوالات میں سے کوئی وضاحت مطلوب تھی، جب اُس انگریزی ماسٹر کے قریب گیا تو اُس نے اُسے اِس انگریزی ماسٹر کے پاس یعنی ہماری جانب روانہ کر دیا جسے ہم نے آن پاکستان سٹیٹ سروس بنام ہیڈ ماسٹر ری ڈائریکٹ کر دیا۔
یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا اور ساری مشکل اسی کے گرنے تک محدود تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کہ انگریزی میں قطعی صاف باطن تھے۔ ہماری اس دیدہ دلیری سے جیسے پُھنک کر رہ گئے جس کے بعد موصوف نے وہی کُچھ کیا جوہر زیرک سربراہِادارہ کا خاصا ہوتا ہے اور مذکورہ بارش کے قطروں کی پیہم بو چھاڑسے بو کھلا کر اپنا سرکاری چھاتہ یعنی آرڈر بک منگوائی اور اس پر جو کُچھ لکھا اسکا مفہوم قطعی سلیس اُردو میں یہ تھا۔ (اس لئے کہ ان کی اپنی اُردو بُہت فاضلانہ تھی ) کہ پرچوں کی مارکنگ جملہ تقاضہ ہائے دیانت داری کو بروئے کار لاتے ہوئے کی جائے ورنہ اس پابندی سے منحرف ہونے والے کا حشر وہی ہو گا جو استادِ شاہ کے حق میں ارتکابِ گستاخی پر غالب کے بارے میں تصوّر کیا جاتا ہے۔
ہم نے آرڈر مذکورہ پر اطلاع یابی کے دستخط ثبت کئے تو اندر سے اور بھی کھلکھلا اٹھے کہ پانی پت کا یہ میدان اب سراسر ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ اور یوں تھا کہ بہ اشتراکِ رفیقِ ثانی ہم نے پرچوں کے نمبر کچھ زیادہ ہی دیانت داری سے لگا ڈالے جس کے متحمل اس ادارے کے طلبا تو کیا اساتذہ بھی شاید ہی ہو سکتے تھے ۔ کہ یہ مارکنگ اگر درست تسلیم کر لی جاتی (جو بہرحال درست تو تھی ہی ) تو نتیجہ امتحان نقطۂ انجماد سے بس کچھ ہی درجے اوپر رہ جاتا اورانگریزی کہ زبانِ مقدّسہ تھی اور لازمی مضمون کے طور پر عارضی اساتذہ کی زبانی پڑھائی جاتی تھی۔ سکول بھر کے نتیجے کو ساتھ لے ڈوبنے پر آمادہ نظر آتی تھی بلکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا طرّۂ لازوال بھی خاصے بڑے جنجال میں الجھتا نظر آنے لگا تھا۔ ہر چند موصوف کو نتیجے میں ردّوبدل کا ازلی اختیار حاصل تھا۔ لیکن فی الوقت اُن کے حلقۂ اختیار کے چاروں کندھے اُن کے بس سے کسی قدر باہر تھے۔ شاید یہی وجہ ہوئی کہ دوسرے ہی دن آنجناب نے ہمیں بگوشۂ خلوت بلایا۔ سمجھایا بجھایا، پچکارا اور طرح طرح کے دلاسے دیئے۔ اور شاید بتاشے بھی اور با لآخر استدعائیہ انداز میں کُچھ اس طرح نشیب…میں اترآئے کہ ہمیں کندھوں سے پکڑ کر انہیں اٹھانا پڑا
آئینہ دیکھ اپنا سے منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دیتے پہ کتنا غرور تھا
ہم نے انہیں یوں موم ہوتے دیکھا تو ہمارا سنگِ خارا رہنا بھلا کہاں ممکن ہوتا چنانچہ بالآخر ہم نے پرچوں پر نظر ثانی کا اقرار کر ہی لیا۔ لیکن جب پھر ہم دونوں کی نگاہیں باہم ٹکرائیں، تو دلوں کا وسوسہ زبانوں پر بھی آگیا ……’’مگر اُس آرڈر کا کیا ہو گا جس پر نکاح نامے کی طرح ہم سے دستخط کرائے گئے ہیں‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نہ ہمارے اتنے سے واہمے پر اپنے نامہ ہائے اعمال کی خاص الماری کھولی، آرڈر بک نکالی اور پرچوں کے ہمراہ اسے بھی ہماری آغوش میں دھکیل دیا ۔
شکوک و شبہات کی فضا بھی عجیب ہوتی ہے۔ ہمیں وہ آرڈر بک اپنی جانب بڑھتا ہوا ناگ محسوس ہوئی۔ چنانچہ ہم نے بہ یک زبان کہا ’’… نا… نا… نا… قبلہ ہیڈ ماسٹر صاحب ! یہ متاعِبے بہا اپنے پاس ہی رکھیے اور اپنا مختارِ کل قلم اپنی جیب سے نکالیے کہ اسی تیغِ با نیام کی حرکت میں ہماری جان ہے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہ خوا ہ مخوا ہمارے معمول نظر آرہے تھے۔ اپنا قلم نکالا اور اپنے زورِبازو سے جو علا قہ اپنے زیرِ نگیں کیا تھا وہ سارے کا سارا علاقہ سپاہِپورس کو لوٹا دیا، تاہم ہم اپنے اندر اس احساس کی بیداری سے بچ نہ سکے۔
گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہمصفیر!
اس فصل ہی میں ۔۔ ہم کو گرفتار دیکھنا
جواب دیں