ہم پر کہ پیدائشی پینڈو تھے۔ کالج میں پہنچتے ہی جو بات سب سے پہلے کُھلی، یہ تھی کہ ہم تو سرے سے ہیں ہی… ملاّ نصر الدین اور یہ حادثہ ایک ہمارے ساتھ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ ان آدابِانگلیسی کے پہلو سے سال بہ سال جنم لیتا تھا جن کے تحت انگریز بہادر نے اپنے ’’کامے‘‘ ملک کے طلبا کی عزّتِ نفس کو ان کے اپنے ساتھیوں ہی کے ہاتھوں مجروح کرنے اور کالج کی حدود میں جم کر نہ پڑھنے کے لئے بیفولنگ جیسی رسمِ بد کو باقاعدہ فروغ دے رکھا تھا۔

ہم اس تجربے سے اگرچہ ایک تماشائی کی حیثیت ہی سے گزرے تاہم جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اس نے ہمیں سامراجی ا ذہان کی منفی قوّتوں کا پورا پورا معترف کر دیا۔ ان آدابِ انگلیسی کے علاوہ اپنے فول ہونے کا ایک ثبوت ہمیں یہ ملا کہ داخلہ لیتے وقت کچھ تو یہ کہ:

سو پُشت سے تھا پیشۂ آبا سپہ گری

کہ عسکری علاقے کے فرزند تھے اور اس امر کی تربیت ہی نہیں رکھتے تھے اور کچھ یُوں کہ نجی معاملات کو حل کرنے کے سلسلے میں ہم تھے ہی نرے ’’شرماکل‘‘ ہم نے اپنے لئے مضامین کا انتخاب اپنے ایک استاد مکرم سے کرایا جنہوں نے بہرحال ہماری بہبود اور زمانے کی رفتار کے پیشِ نظر ہمیں اقتصادیات اور ریاضی جیسے براق مضامین تجویز کئے جنہیں ہم نے بکمال عقیدت و انکساری قبولا اور پڑھنا شروع کر دیا لیکن

گرُبہ کُشتن روزِ اوّل ……

جیسا مُجّرب نسخہ ہمیں کسی نے بتایا نہ تھا کہ ہم ان مضامین کو ابتدائے نسبت ہی سے رام کر لیتے، سو نتیجہ وہی رہا جو کسی منہ زور بیوی اور حلیم الطبع خاوند کے باہم گُتھ جانے سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ اجوڑی یہاں تک بڑھی کہ ریاضی کا مضمون جب ہم سے چنگے بھلے ریاض کا تقاضا کرنے لگا اور ایلفا، گاما، تھیٹا جیسے مداری کے گولے ایک ایک سوال کے پہلو سے سینکڑوں کے حساب سے نکلنے لگے تو ہمیں اس پر پُرزے نکالتے مضمون سے ابتدائی ایّام ہی میں وحشت سی ہونے لگی اس لئے کہ ہم اس مضمون کے لئے نہ تواتنی جگرکاوی کر سکتے تھے کہ اُن دنوں

خُشک سیروں تنِ شاعر سے لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ ترکی صورت

جیسے عملی تجربوں میں سرتاپا غرق تھے اور نہ ہی ہم خود کو اس طلسماتی فضا میں کُھل کر سانس لینے کے قابل سمجھتے تھے۔علامہ مشرقی کا معاملہ الگ تھا جن کا ان دونوں ہمیں علم نہ تھا،یہ بات ہم پر اس میدان سے بھاگ جانے کے بعد کُھلی کہ:

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

ہم نے جس بیفولنگ کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا ہے اس کا کُچھ کُچھ شکار ہم خود بھی ہوئے اور یوں ہوئے کہ ریاضی کے طالب علم ہوتے ہوئے اور ایلفا ۔گاما۔تھیٹا جیسی اصطلاحوں سے معاندانہ واقفیت رکھتے ہو ئے بھی ہم ایک چکر میں آگئے، ریاضی کے مضمون نے جب ملیریا بخار کی طرح ہمیں پیہم اُبکائیاں چُھڑا دیں تو ہم نے اس کے لئے علاج وہ تجویز کیا جو کونین نہ تھا کہ یہ کڑواگُھونٹ جیسے تیسے ہوتا چڑھا لیتے بلکہ وہ کیا جو خالصتاً مشرقی مدّوجزرکی پیداوار تھا یعنی انتخابِ زبانِ اُردو ۔۔۔۔جو اُن دنوں محض اختیاری مضمون کے بطور ہی پڑھی جا سکتی تھی۔

مضمون کی تبدیلی کا فیصلہ تو ہوا سو ہوا۔لیکن اسے عملی صورت دینا ہمیں تبدیلیٔ جنس سے بھی کہیں زیادہ مشکل نظر آیا ۔اس لئے کہ وہ تو پھر ایک قدرتی عمل ہوتا ہے جو ازخود ہونے لگتا ہے لیکن یہ تبدیلی۔۔۔۔ ! خدا کی پناہ!۔۔۔۔ اس میں تو ہمیں کُچھ باہلاہی ’کِھجل خراب‘ ہونا پڑا اور کِھجل خراب ہم یوں ہو ئے کہ سیکنڈ ائیر کے ایک سادہ لوح بلکہ بظاہر سادہ اور اپنے ہمزاج طالب علم سے ہم نے اس تبدیلی کا طریقِکار پوچھ ڈالا جس کم بخت نے اگرچہ ہمیں راہ تو سیدھی سُجھائی لیکن بقول شاعر کسی قدر ذاتی تصرف کے ساتھ یعنی

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

اور کہا ہمیں یہ کہ۔ ’’مضمون کی تبدیلی کے لئے پرنسپل کے نام درخواست لکھو ، اُسے تِھیٹا صاحب کے پاس لے جاؤ وہ اس امر کی اجازت دے دیں تو بس مزے سے اپنا مضمون بھی بدل لو اور اپنی کلاس بھی بدل لو‘‘

ہر چند ہم تھیٹاکے چکر سے نکلنے کے لئے کوشاں تھے ۔ ہمیں اس سازش کا احساس تک نہ ہونے پایا اور ہم بکمال سادہ دلی اپنے ہم مکتب ساتھی کے سُجھائے ہوئے بلاک میں جا کر چپڑاسی سے کسی قدر بلند آواز میں پوچھنے لگنے ’’ تھیٹا صاحب کہاں ہونگے‘‘ ہمارا اتنا کہنا تھا کہ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

دوسرے لمحے ہم کُچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھے۔ تبدیلیٔ مضمون کی درخواست کہاں رہ گئی اور ہم کہاں نکل گئے۔ اس کا اندازہ ہمیں بحالیٔ حواس کے بہت بعد ہوا۔ اس لئے کہ مذکورہ استاد جنہیں ہم نے ’’تھیٹا ‘‘ کہہ کر پکارا تھا شاید اپنے اس عُرفِ بد کے کچھ زیادہ ہینالاں تھے۔ ہمارے منہ سے اس لفظ کی معصومانہ ادائیگی کے فوراً بعد اپنی چھڑی سمیت ہم پر کچھ یوں جھپٹے جیسے پیرا شوٹ نہ کھلنے کی صورت میں ہواباز زمین کی راہ لیتا ہے۔

ہم اس حادثے سے تو بقول فراؔ ز ؎

جاں دے کے بھی سمجھو کہ سلامت نکل آئے

لیکن جو ملیریا بخار ہمیں لاحق تھا اس کا کوئی دارو ہوتا ہمیں نظر نہ آیا۔ اس لئے کہ؎

اُگنے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی

تاہم ہم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے ایک اور استادِ مکرّم سے رابطہ قائم کیا۔ تو یہ عُقدہ بھی کچھ کچھ وا ہوتا نظر آیا۔

استادِ مکرّم نے ہمیں ہدایت یہ دی کہ ’’برخوردار‘‘ پہلے اپنے دونوں مضامین سے متعلقہ اساتذہ سے درخواست پر تحریری رضامندی درج کراؤ، درخواست مجھے دو اور پھر بے شک وہی مضمون پڑھو جو تمہیں طبعاً موافق ہے۔

یہ نسخہ قدرے آسان نکلا، اس لئے کہ استاد ریاضیات نے تو درخواست سے مصافحہ کئے بغیر ہی اس پر اپنی رضامندی ثبت فرما دی۔ رہے استادِ ادبیات سو انہوں نے نہ صرف درخواست کی صحت کواوپر نیچے ‘آگے پیچھے سے جانچا پرکھابلکہ ہمارے جذبۂ شوق کی بھی خوب خوب تقطیع کی۔ تب کہیں انہیں یقین آیا کہ یہ رضامندی اگر ہم نے دے بھی دی تو غزنوی ؔاور فردوسی ؔجیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ سو اس، کسی قدرلیسلے پراسس کے طے ہونے کے بعد ہماری آدھی مشکل تو حل ہو گئی یعنی عارضۂ ریاضی سے ہم پوری طرح جانبر ہو گئے۔ رہا اقتصادیات کا مضمون سو اسے ہم نے رائج الوقت قومی زبوں حالی کے پیش نظر چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور کسی بھی سعادت مند فرزندِوطن کی طرح حصول تعلیم میں جُٹ گئے۔

لیکن وہ علّت جو ہمیں میٹرک کے ایام ہی سے لاحق تھی اور جس نے ہمیں تعمیرِ مستقبل کی کھیتی میں پوہلی پیازی کی طرح جکڑ رکھاتھا، یعنی علّتِ شعر گوئی۔ اس کے تقاضے کچھ ایسے نکلے کہ یکسوئی سے پڑھنا ہمارے لئے۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

کی مثال ہو کر رہ گیا۔ اور اس طرح اقتصادیات کے مضمون کی تیاری میں، یعنی سکے سے سونا بننے میں ایک آدھ آنچ کی کسر یوں باقی رہ گئی کہ جب عاقبت کو پہنچے تو ہماری غیر متوقع ناکامی پر (جو بے شک جزوی سہی) لوگوں کے منہ کُھلے کے کُھلے رہ گئے۔ اس لئے کہ کالج میں ہماری طالب علمانہ ساکھ کچھ ایسی نہ تھی بلکہ ویسی تھی یعنی ناقابلِیقین حد تک او۔’کے‘ اس کے باوجود خداوندانِبورڈ نے اپنے پہلے ہی معرکے میں (کہ لاہور بورڈ کا یہ پہلونٹی کا امتحان تھا اور ہم اس کے ہزاروں سمیت پہلے امیدوار) ہماری آب دارو تابناک شخصیت کے ماتھے پر کمپارٹمنٹ کا نظر بٹو لگے ہاتھوں ٹکا دیا۔ اور ساتھ ہی تسلی بھی دلائی کہ

ابھی کم سن ہو رہنے دو کہیں کھو دو گے دل میرا

تمہارے ہی لئے رکھا ہے لے لینا، جواں ہو کر

اور کمپارٹمنٹ ہمیں اسی ناہنجار مضمون میں ملی ۔ جسے ہم نے اتفاقاً اختیار کیا تھا یعنی وہی نامراد۔۔۔۔۔ اقتصادیات‘ باقی مضامین تو جیسے ہمارے پالتو کبوتر تھے۔جنہیں ہم جس طرح جی میں آتا قلابازیاں دلایا کرتے، اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری طالب علمانہ ساکھ اگر کچھ تھی تو ان ہی پالتو کبوتروں کے طفیل تھی۔ جن میں سے چاروں کی چاروں زبانیں تھیں جو ایک کے سوا سبھی غیرالہامی تھیں یعنی عربی، فارسی، اردو اور انگریزی جن میں سے عربی کے ہم صرف قاری تھے (کہ قرأت سے آگے جانا ویسے بھی ہمارے نصابِ مذہبی میں اختیاری مضمون ہے) جبکہ انگریزی کے مزاج پر ہمارا وجود کسی قدر گراں تھا اس لئے کہ ہم طبعاً افضل رندھاوا جیسے نہ سہی نیم ٹھیٹھ پنجابی ضرور تھے لہذا ہم میں اور انگریزی میں اتنا بُعد بہرحال برقرار رہا جتنا بُعد چھ گز کے تہہ بند اور ڈیڑھ گز کی پتلون میں ہوتا ہے۔ تاہم اپنی سطح پر عربی انگریزی میں ہماری ہوا خاصی بندھی نظر آتی تھی۔

جہاں تک فارسی کا تعلق تھا۔ درآں حالیکہ تیل اب اس کے تفاخر کا سبب ہے ہمیں اس کا داماد جانیے کہ اس خوش دامن زبان میں، ایک آدھ نیم پخت غزل کے خالق ہم اُس عہدِ طفلی میں بھی تھے۔ (جو آج تک ہماری فکری منصوبہ بندی کے تحت اکلوتی ہی پھر رہی ہے) رہی اس کی لے پالک بچی ہماری مُراد اردو سے ہے۔ وہی عفیفہ جسے ہم نے بہ کاوشِ تمام اپنایا تھا سو ہمارے خیال میں موصوفہ ہر لحاظ سے ہماری منکوحہ تھی اور ہے۔ اگرچہ اس کے تقاضے کسی بھی منکوحہ کی طرح، آج تک تشنۂ تکمیل ہیں۔

نہیں کھیل بچوں کا اے داغؔ کہہ دو

کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے

ماجد صدیقی