عسکری علاقے سے متعلق ہونے کے باعث ہمارے یہاں یہ روایت آج بھی عام ہے کہ کوئی جوان جب بھی فوج میں ’’نانواں‘‘ لگوا کر جاتاہے اُس وقت سے اُس کی فطری یا جبری ریٹائرمنٹ کے عرصے تک اُس کی رسم مشایعت بڑے یادگار انداز سے ادا کی جاتی ہے جس کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو سڑک پر جاتی کوئی بھی بس اُس یوسف باکارواں کو لے جانے کے لالچ میں اپنی انتہائی تیزرفتاری کے باوجود ضرور رُک جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ خداوندانِ بس کے حریصانہ طور پر رکنے پر بھی۔

جو چیرا تو اک قطرہ ٔخون نکلا

والا منظر بس والوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ اُس جلوس میں سے بس والوں کا ساتھی (یعنی سواری)صرف ایک ہی ہوتا ہے چنانچہ ہم کہ اپنے علاقے کی عسکر یانہ روایات کو توڑکر جا رہے تھے۔ باوجود اس روایت شکنی کے جب سفرِتعلیم و تدریس پر وانہ ہوئے تو اس رسم مشایعت سے ہرگز محروم نہ ہونے دئیے گئے اور جہاں اہلِمحلہ کو ہمارے برسرِروزگار ہونے کی اطلاع بتاشوں اور ریوڑیوں کی صورت میں مل چکی تھی وہاں گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ہمیں رخصت کرنے والے جلوس کے ذریعے ہماری اس سعادت مندی سے آگاہ ہو گئے۔

ہمارا موجودہ سفر… ظاہر ہے بیرونِملک کا سفر نہ تھا بلکہ اندرونِ ملک کا بھی نہیں کہ کراچی کے کسی مکین کو چالیس میل کا یہ سفر بطور سفر تسلیم کرانا پڑے تو شاید وہ مدّعی کی ذہنی بلوغت پر ہی شک کرنے لگے تاہم ہمیں یہ چالیس میل ایک تو اس لئے چالیس صد میل لگے کہ؎

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتارہم ہوئے

یعنی بہ فکرِخویش بے عمر ہی ملازمت میں جُھنک چلے تھے، دوسرا اس لئے کہ اُن دنوں (اور یہ صرف اٹھارہ بیس سال ادھر کی بات ہے) دنیاکے غبارے کی ہوا اس طرح نہیں نکلی تھی، جیسی صورت اب ہے خلائی شہزادوں کو پریس کانفرنس بھی کرنا ہوتی ہے۔ تو وہ یہ شوق کرۂ ارض سے سینکڑوں میل دور جا کر پورا کرتے ہیں جبکہ ہم ایک ایسے گاؤں سے متعلق تھے جس کے بعض بڈھوں نے اپنی آنکھوں سے ریلوے لائن تک کی زیارت نہیں کی تھی اور تیسرا یوں کہ ہمارے سفر کا راستہ ہی دو پہلو طرز کا تھا کہ اٹھائیس میل تو بس اور پکّی سڑک کے ذریعے طے ہوتے تھے لیکن باقی بارہ میل کا پندھ کسی کیرئیر اور کچی سڑک یا ٹرین کے ذریعے طے کیا جا سکتا تھا چنانچہ ان حالات میں دوپہلو طرز کے اس سفر کی گرانی اگر ہمیں محسوس ہوئی تو کچھ ایسی بے جا نہ تھی۔

ہم نے رختِسفر باندھا لیکن نہ اُس طرح جیسے زمانۂ طالب علمی میں لاہور جانے کے لئے باندھا تھاکہ سانپ کے ڈرسے اب رسی سے بھی ڈر رہے تھے اور اُس اٹیچی کیس سے خاصے محتاط تھے جس کے محض دستے کی عدم موجودگی نے ہمیں لاہور بدر کر دیا تھا۔لہٰذا اب کے ہم نے ایک بیگ ہی میں اپنا سارا سامانِ حیات کھپایا اور بس میں سوار ہو گئے لیکن جب اٹھائیس میل کے بعد کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تو خیر سے خاصا صبرآزما نکلا اس لئے کہ اُن دنوں جو ٹرین ہماری نئی نئی منزلِ مقصود تک جاتی تھی اُس کی روانگی کے اوقات یا تو سراسر زوال پذیر تھے کہ دن ڈھلے ہی اُدھر کا رُخ کرتی۔ یا پھر زیادہ ہی ترقی پذیر کہ اُس کی روانگی کا دوسرا (یا شاید پہلا) وقت بارہ مہینے ماہِ رمضان کی سحری کے ریہرسل کے خیال سے مقرر کیا گیا تھا لیکن بحمداﷲ کہ ہمیں جو ٹرین درپیش تھی وہ اوّل الذکر تھی جسے ہم نے ریلوے سٹیشن پر تین گھنٹے تک دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کے بعد پکڑا تب کہیں چوتھے گھنٹے کے خاتمے پر ہم اپنی منزل مقصود پر تھے۔ سکول پہنچے تو وہاں بھی زوال اپنے عروج پر تھا۔ کہ اِدھر ہم نے سکول کی چاردیواری میں قدم رکھا اور اُدھر‘ سکول کے دمِ واپسیں نے اپنی مخصوص ٹن ٹن سے ہمارا استقبال شروع کر دیا۔ جسے ہم نے اکیس توپوں کی سلامی سمجھا یا جانے کیا سمجھا طلبائے مدرسہ کے حق میں ہماری آمدبہرحال ایک نیک شگون ثابت ہوئی۔

طلباء کے ہجوم کو چیرتے ہم اسکول کے دفتر میں پہنچے تو وہاں ایک اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اس لئے کہ سارا سٹاف رجسٹر معلمین پر جھکا اپنی دہاڑی کھری کرنے کے در پے تھا سکول میں ہماری آمد چونکہ بذریعہ احکامات متوقع تھی لہٰذا تعارف کا مرحلہ یکطرفہ ہی رہا اور جب یہ سارا کُچھ ہو چکا تو ہم نے میرِ مجلس سے مصافحہ کی ٹھانی ۔ لیکن استفسار پر پتہ چلا کہ وہ تو کو ٹھے گئے ہیں لفظ کو ٹھے نے ہمیں ایک پل تو شکوک و شبہات کی وادی میں دھکیل دیا لیکن حفظِ مراتب کے خوف سے دوسرے پل ہم نے جو قدرتی حرکت کی وہ یہ تھی کہ کمروں کے اوپر’’ اوکڑنے ‘‘ لگے جس پر ایک صاحب نے ہمیں اُلجھن میں دیکھ کر فرمایا ’’نہیں صاحب !کوٹھہ ایک گاؤں کا نام ہے۔ آپ ان کی غیر موجودگی سے پریشان نہ ہوں آپ کے لئے انہوں نے یہ اجازت پیشگی دے رکھی ہے کہ اگر آپ شام کی گاڑی سے پہنچ جائیں تو آپ کا آج کا دن آپ کا ملازمت کا پہلا دن قرار پائے گا‘‘ اور پھر رجسٹر معلمین ہمارے ہاتھ میں تھمایا جس پر ہم نے بقلم خود اپنا نام درج کیااور صبح و شام کی حاضری ثبت کر دی۔

ا اور اب دوسرا مرحلہ۔۔۔ قیام و طعام کا مرحلہ تھا جس کا حل اس سے بھی زیادہ فوری نکلا اور ہمیں ایک’ چَھڑے ‘ماسٹر صاحب سے لٔف کر دیا گیا ہم نے پہلی ہی نظر میں انہیں دیکھا تو ہمیں اپنی ملازمت کی چادر اپنے پیروں سے کُچھ چھوٹی ہی دکھائی دی کہ جو چادر انہوں نے اوڑھ رکھی تھی ہماری مُراد ان کے لباس سے ہے۔ اس پر کُچھ اس طرح نادم ہو رہے تھے کہ سکول سے قیام گاہ تک تعارف کے ابتدائی مرحلوں ہی میں ۔۔۔۔وہ بار بار زیادہ زور جس بات پر دیتے رہے۔ یہی تھی کہ انہوں نے اس طرزِ پو شش کو محض شعائرِاسلامی کے طور پر اپنا رکھا ہے۔ ہم نے ایک آدھ بار زیرلب ۔۔۔۔اسلام پر اُن کی اس صریحاً الزام تراشی کے خلاف کُچھ کہنا بھی چاہاتو ان کی زبانِ توانا‘ فلور مل کے گھگو کی طرح کُچھ اس تیزی سے چلتی پائی کہ ہماری بات کو ابھرنا ہی نصیب نہ ہوا، خوش لباسی یا بد لباسی کا تعلق تو ذوقِ لطیف کے علاوہ رزقِ خفیف سے بھی ہو سکتاتھا حادثہ یہ تھا کہ فطرت نے بھی جیسے ان سے کُچھ زیادہ ہی ناانصافی برتی تھی،کَج خطوط تو ہم بھی خاصے تھے لیکن اس میدان میں اگر ہم تھرڈڈویژنر تھے تو وہ یقینا اسکالر شپ ہولڈر کا درجہ رکھتے تھے ۔ ۔ ۔لیکن قارئین کرام! ان کا یہ جائزہ تو کُچھ سسرالی قسم کا نہیں ہو چلا ہے؟ معذرت چاہتے ہیں حضرات۔ آئیے اب ذرا آگے چلتے ہیں۔

ماسٹر صاحب کی اقامت گاپہنچے تو دروازہ کھلتے ہی ہم نے ایک چاٹ دیکھا جس پر بحروفِ جلی لکھا ہوا تھا:

کسی دن ‘ادھر سے گزر کر تو دیکھو

بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے

ہم نے یہ شعر پڑھا تو ہمیں یوں لگا جیسے یہ جنّتِ ارضی ہماری ہی منتظر تھی کہ ماسٹر صاحب ہم پیشہ تو تھے ہی ہم ذوق بھی نکلے ہم نے اُن کے ذوقِ سخن کو کریدا تو کسی قدرچِڑ کر کہنے لگے ۔’’ شعر وِعر‘‘ سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں یہ شعر تو ہمارے ایک دوست نے مکان ہذا کی ہئیت کذائی کے پیش نظر شرارتاً یہاں ٹانک دیا ہے‘‘۔

یوں تو ہم اس گفتگو کو خاصی طوالت دیتے کہ اس وقت تک کی زندگی میں اگر ہماری کھٹی کمائی کُچھ تھی تو یہی تھی لیکن اپنے ذاتی تعارف کی تفصیل کا یہ وقت نہ تھا اور اگروقت تھا تو یہ کہ رات کو پکایا کیا جائے گا جو اس لمحے اگرچہ ہمارا دردِ سر نہ تھا لیکن ماسٹر صاحب نے ادھر کا رُخ کیا تو احتراماً ہماری رائے بھی طلب کر لی چنانچہ ہم کہ تین چار ماہ سے ’’نکّالَون‘‘ یعنی کڑھی وغیرہ کھانے کے بالہدایت پابند تھے فرمائش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور فرمائش کی بھی تو سونف ، اجوائن کی کڑھی کی جسے انہوں نے اپنے معمولات اور طبیعت کے عین موافق پایا اور متروکہ کانجی ہاؤس اور موجودہ استاد خانہ کے دوسرے کمرے میں گُھس گئے۔ اس لئے کہ ہماری فرمائش پوری کرنے کے لئے انہیں جس خشک رسد کی ضرورت تھی غالباً وہ رسد انہوں نے پہلے ہی سے وافر مقدار میں اپنے ہاں سٹاک کر رکھی تھی۔ ہم نے دوسرے کمرے میں جھانکا تو مکان اور مکین کو ایک جیسا پایاکہ کمرے کی چھت اور ہمارے میزبان کی قامت دونوں میں بہت کُچھ مشابہ نظر آیا جسے ضمیر جعفری کی زبان میں یوں بھی کہہ لیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو ۔

جو چیز چاہیے تھی جہاں پر۔۔۔ ۔وہیں نہیں

چھت بے تکلفی میں‘کہیں ہے‘ کہیں نہیں

ماجد صدیقی