ہم اب اپنی ملازمت کے اسٹیشن نمبر تین پر پہنچ چکے تھے، اس لئے کہ اسٹیشن نمبر ایک تو وہی تھا جہاں سے ہم تازہ تازہ آئے تھے۔ دوسرا قدرے چھوٹا اسٹیشن (بلحاظ قیام) راولپنڈی تھا، اور تیسرا یہی جس کاذکر ہوا رہا ہے۔

یہ مقام اگرچہ نسبتاً زیادہ خاموش طبع تھا لیکن ہماری نظر میں اس کی بڑی خوبی یہ تھی کہ سڑک کے کنارے واقع تھا جو سیدھی جلالپور جٹاں کو جاتی تھی اور وہ بھی بے دھڑک۔ ایک اور کشش اس سٹیشن میں یہ تھی کہ وہاں کے رئیس مدرسہ ایک ایسے شخص تھے جنہیں ہونا تو ادیب چاہئے تھا لیکن حادثات زمانہ کے ہاتھوں محض استاد ہو کر رہ گئے تھے۔ تاہم اس صلاحیت کا رُخ انہوں نے اُس دانائی کی جانب موڑ رکھا تھا جسے عرف عام میں علم طبابت کہا جاتا ہے۔

ہم کہ مبینہ مریض قلب و جگر تھے۔ ان سے اس ضمن میں بھی توقعات رکھتے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ بہت بعد تک بھی ہم اپنی ان توقعات کوپورا نہ کرنے پائے اس لئے کہ:

دل و نظر سے جو اُس پر کھلا نہ راز اپنا

تو حرف و صوت سے احساس کیا دلاتے اسے

اور احساس انہیں اس لئے نہ ہوا کہ ان کی پتری ہمارے حق میں ویسے ہی ٹھیک نکلی، ان کا اندازہ یہ تھا کہ جب تک ہماری تخلیقی صلاحیتیں فعال ہیں ہمارے اس عارضے کا علاج ناممکن ہے اور بھلا ہوا کہ ہم اس نئے مقام پرکسی جمال گوٹے وغیرہ کی زد سے صاف طور

بچے رہے۔

نئے اسٹیشن پر پہنچے تو ماحول یکسر مختلف تھا، ہیڈماسٹر صاحب ہمیں مودبانہ تو نہیں بلکہ اَدب آشنا نگاہ سے ضرور دیکھتے تھے اور بہت اچھا دیکھتے تھے۔ لہذا کسی گزشتہ ڈرامے کے اعادے کا کوئی کھٹکا نہ تھا، ویسے بھی سکول کے اساتذہ اور طلبہ کی تعداد پلاننگ آشنا تھی اور سکول کی فضا کچھ تو قحط الرجال کے باعث اور کچھ فیاضی فطرت کی وجہ سے…… کہ ندی کنارے کی فضا تھی۔ جناب فیضؔ کی شعری فضا کی طرح خاصی سکون پرور اور مدھم مدھم سی تھی جہاں تدریسی کام کچھ یوں سبک لگتا جیسے ہم کسی مکتب میں نہیں بلکہ کسی ٹی وی پروگرام کی شوٹنگ کے لئے آئے ہوئے ہیں لیکن ہم کہ گزشتہ پانچ چھبرس سے بذریعہ بس جائے ملازمت پر پہنچنے کو ترس گئے تھے جب ایک ایسے اسٹیشن سے فیض یاب ہوئے جہاں اپنے گاؤں سے بس پر بیٹھ کر سیدھے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ سکتے تھے۔ دونوں دیہات کے درمیان کچھ یوں آنے جانے لگے جیسے منگنی او شادی کے درمیانی وقفے میں ’’میکال و سسرال‘‘ کی قیام گاہوں کے درمیان کوئی دولہامبتلائے سفر رہتاہے۔

مگر نہیں یہ مبالغہ تو شاید زیادہ ہو وہاں ہفتے کی شام یا کسی چھٹی کے دن سے پہلے کی شام ہمارا دل گھر جانے کو کچھ زیادہ ہی زور کرتا، لہذا ہم نے اس لاڈلے کا کہا موڑنا کبھی مناسب نہ سمجھا اس لئے کہ اس سفر میں سب سے بڑی عیاشی اگر ہمارے لئے تو یہ کہ اپنی امی جان کے ہاتھو ں کا ناشتہ نوش جان کرنے کے باوجود ہم اسی صبح اپنے سکول میں پہنچ جایا کرتے اگرچہ یہ سفر رِسکی ضرور ہوتا تھا۔

دو تین ہفتے گزرے تو یہ سفر واقعی رِسکی ہو گیااور اس طرح ہوا کہ دوران سفرایک مقام ایسا بھی آتا تھا جسے اصطلاح میں ’’چنہاں دا کنڈھا‘‘ بھی کہا جاتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ اس لئے کہ اس اسٹیشن پر شوقکی راہ میں ’’مشکل کارفرما تھیں اور ان مشکلہا کا تعلق اس مقام پر ہمارے معائن افسر کے دفتر کے واقع ہونے سے تھا جنہیں محکمانہ اصطلاح میں اے ڈی آئی کہاجاتا تھا اور جو ان دنوں اساتذہ کرام سے خاکم بدہن؎

بعد از خُدا بزرگ توئی قصّہ مختصر

جیسی حیثیت تسلیم کرانیکے بعد برضا و رغبت متقاضی ہوا کرتے تھے اور جن سے ایک آدھ بار ازروئے اتفاق ہمارا ’’گھول‘‘پڑ بھی چکا تھا لیکن گاہ گاہ گھور اندھریوں میں بھی کوئی جگنو ٹمٹما اٹھتا ہے۔ مذکورہ مقام اسطرح کے دو افسروں کا ٹھکانا تھا، جن میں سے ایک سے خدا جانے سروس کے ابتدائی ماتحتانہ ایام ہی میں ہماری کیسے بن آئی کہ تعلقات کی نوعیت؎

بندہ و صاحب و متاج و غنی ایک ہوئے

جیسی ہو گئی لیکن وہ جو دوسرے تھے اور ان دنوں ہمارے امیجیٹ افسر تھے ایک تو اپنے جسمانی جغرافیے کی وجہ سے اور ایک خاندانی حدوداربعے کے لحاظ سے…… کہ اس وقت کے سب سے بڑے ضلعی افسر کے خانوادے کیچشم و چراغ تھے، ہمیں اپنے قد سے خواہ مخواہ بڑے نظر آتے اور جو بدشگونی اس دن ہوئی یہ تھی کہ ہم نے حسب معمول بس بدلی تو بس کی فرنٹ سیٹ کو ان دونوں حضرات کی بالجسد موجودگی سے کسی بیکری کے سانچے کی طرح ٹھنسا ہوا پییا، ہم کہ بیکریکے بے بی بسکٹ سے بھی کچھ کم تھے، اس تناظر میں اپنے آپ کو چوپٹ

کیآخریگاٹی کی طرح بہر لحاظ خطرے میں محسوس کر رہے تھے ہم نے ان حضرات سے چشم پوشی کی بجائے زیادہ خطرناک اقدام کیا اور بجائے بس سٹاپ کے کسی کو نے میں چھپنے اور کسی دوسری بس کی تاک میں رہنے کے بس کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے اور دل ہی دل میں کورنش بجا لاتے اپنے افسران معائن تک پہنچ گئے اور اس لئے پہنچ گئے کہ ان راروان راہ وفا کی منزل وہ بھی تو ہو سکتی تھی جو منزل ہمارے دہن و شکم کی تھی اور بعد میں ہوا بھی یہی مگر جو کچھ اس وقت ہوا وہ ہماری توقع کے عین برعکس تھا اس لئے کہ ہم گھر سے وقت پر بس نہ ملنے کے باعث آدھ پون گھنٹہ لیٹ ضرور تھے لیکن اس برہمی کے مستحق نہ تھے جو ہمیں اس پردیس کے عالم میں دیکھناپڑی۔

بس میں ازروئے اتفاق ابھی کوئی چوتھا درویش نہیں آنے پایا تھا، لہذا خیریت رہی کہ ہمیں جو تلخ و ترش سننا پڑا اس میں شماتت ہمسایہ کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ موصوف نے کہ ہمارے سگے باس تھے ہمیں رنگے ہاتھوں دیکھا تو کسی نوآموز ریکروٹ کی طرح ہم پر تند و تیز الزامات کی چاند ماری کر دی۔ اس چاند ماری میں اگرچہ کوئی نشانہ ہماری چاند پر تو صحیح نہ بیٹھا (چاند اس مفہوم میں کہ ٹائیفائیڈ کیایک تازہ تازہ حملے کے باعث ہمارے سر کے بال ان دنوں خاصے اڑ چکے تھے) لیکن انہوں نے اس موقع پر اپنے نگران محکمے کی روٹیاں ضرور حلال کر ڈالیں ہمیں اس کا اندازہ تو نہیں کہ یہ طوفان کب تھما اس لئے کہ بس میں ڈرائیور اور کنڈکٹر کے سوا اور کوئی سواری مذکورہ مقام سے نہ بیٹھی البتہ اتنا یاد ہے کہ جب بس سے اترے تو ہمارے قبلہ و کعبہ ہمارے آگے آگے تھے اور ہم ان کے پیچھے پیچھے اور مارشل لاء کی اصل

دفعات کے نفاذ کا مقام ابھی دوچار فرلانگ آگے پڑتا تھا۔

یہ الگ بات کہ پیچھا نہ کیا

گھر سے تو اس کے برابر نکلا!

والا قصہ ہوتا تو ہماری معصومیت قابلِ دید بھی تھی لیکن اب تو ہم برابر موصوف کا پیچھا کر رہے تھے،گویا مُجرم اپنے حق میں عادلانہ کاروائی کے لئے انصاف کا تعاقب کر رہا تھا ہم راہ بھر سر نیہیوڑائے چلتے تو رہے لیکن یوں جیسے ہمارے زیر قدم سطح ماہتاب تھی کہ اپنے جیسے تیسے وزن میں با پناہ کمی کا احساس ہمیں برابر ستاتا رہا آخر جب سکول پہنچے تو ہاں بھی پہلا قدم موصوف نے ہی سکول میں ٹکایا اور

دُور بیٹھا غبارِمیر اس سے

عشق بِن یہ اوب نہیں آتا

ہم کہ ویسے ہی متاخر تھے سکول کے احاطے میں بھی بعد ہی میں داخل ہوئے جہاں پہنچتے ہی ہم نے ایک لاشعوری یا بالغانہ حرکت یہ کی کہ رجسٹر حاضری معلمین پر بلا تعینِ زمانہ اپنے حاضری کے خانے میں اپنے دستخط بقائمی ہوش و حواس کر ثبت کر دئیے تا کہ سند رہے اور بوقت مصیبت کام آتے اور سکول اس لمحے ہمارے لئے میدان حشر اس لئے تھا کہ ہمارا نامئہ اعمال وہاں سے با آسانی دستیاب ہو سکتا تھا جو حاصل بھی کیا گیا لیکن بحمد اﷲ کہ اس میں آڈٹ کی کوئی غلطی نہ تھی۔ البتہ جب موصوف کے حضور ہماری باقاعدہ مجرمانہ پیشی ہوئی تو سوال جواب کا سلسلہ بڑا مختصر نکلا … فرمایا … ’’ آپ نے اپنی حاضری کے ساتھ وقت کا

اندراج کیوں نہیں کیا؟ ہم نے اپنے رزق نامے کے سامنے عالمِ رکوع میں اگر کچھ کیا تو یہی کہ بکمال عُجلت اپنا قلم نکالا اور

دل و جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں

کی مکمل تصویر بن گئے، انہوں نے یہ منظر دیکھا تو ازراہ تفنّن یااز شاہراہ ترّحم پورے دو تین گھٹنوں کے بعد پہلی مرتبہ ان کا اصل چہرہ ان کے کندھوں پرہمیں لوٹتا دکھائی دیا کہ موصوف کے خشمگیں ہونے کا رنج ہمیں تھا یا نہیں موصوف کے چہرے کی وجاہت کے بگڑنے کا قلق ہمیں بلاشبہ تھا ہمارے نظریات میں یہ تبدیلی تو بہت بعد میں آئی؎

پھر یہ کہاں لطف ہجوم نگاہ

ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا

تاہم اس وقت ہمارا جو عالم تھا وہ یقینا موصوف کے حق میں ہمدردانہ تھا کہ غم و غصہ انہیں زیبا نہ تھا

احساس برہمی سے چہرہ خزاں ہوا ہے

کیجے اسی سے اس کا اندازہ ناز کی کا!

مگر خیر اب جوان کے رُخ پر زیرلب مسکراہٹ کا چند طلوع ہو ہی چکا تو ہماری فکری اور وجدانی کیفیات بھی بحال ہونے لگیں اور اس گھڑی تو مکمل طور پر بحال ہو گئیں جب انہوں نے اپنے قلم سے ہمارے نام کے سامنے وہی وقت درج کر دیا جو انوکی نے اکی کے سامنے درج کیا تھا۔

وہ دن اور پھر اس کے بعد کا دسواں دن ہم نے اگرچہ اپنے گاؤں کا رخ تو نہ کیا لیکن ایک اہتمام ’’اندر و اندری‘‘ یہ کر ڈالا کہ مغرب کی فضا راس نہ آئی۔ تو یکایک مشرق میں جانے کی ٹھان لی اور اس ہجرت میں خضر انہی صاحب کو کیا جو گزشتہ سطور میں مذکورہ سفر کے دوران کے ابتدائی چند میلوں میں ہمیں ایک خاموش تماشائی کی طرح دیکھتے رہے تھے۔ المختصر یہ کہ ہم نے اپنا تبادلہ اپنے سرکاری حلقے کے ایک انتہائی مشرقی سکول میں کرا ڈالا۔

ماجد صدیقی