ایک ماہ نامے کا مُدیر ایک روزنامے کا کالمسٹ اور ایک سکول کا استاد رہچکنے کے بعد ہم گاؤں پہنچے تو ہماری حالت بالکل معتوب و معزول وزیروں جیسی تھی جس کا اگرچہ ہمیں تجربہ تو نہیں لیکن لوگ باگ ہمیں کچھ ایسی ہی نگاہوں سے دیکھا کرتے جس طرح ایسے اصحاب کو دیکھا جاتا ہے۔ ایک بات البتہ ہم نے بھی بڑے لوگوں والی کی۔ جو یہ تھی کہ اپنے صحن خانہ کے ایک گوشے میں موسمی پھولوں کا ایک چھوٹا سا باغیچہ لگا ڈالا چنانچہ اس طرح ہمارا کچھ وقت تو ان کی داشت پرداخت میں گزرنے لگا اور کچھ وقت علامہ اقبالؒ کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ گنگنانے میں یعنی یہ کہ
دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب
مہینہ بھر کے مکمل آرام و استراحت کے بعد ہم نے اپنے دوش و فردا پر نظر ڈالی تو کسی دیوالیے ساہوکار کی طرح پرانے بہی کھاتوں میں ایک نام ذہن میں معاً جگمگا اٹھا اور یہ نام نامی تھا اپنے سابق ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کاجنہیں محض اس لئے ہمارا خیال رہتا تھا کہ ہم ان کے نزدیک مستقبل کی ادبی کھیتی کے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات تھے۔
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہوا کمال اچھا
رشتے کا اس نحیف سی کرن کی روشنی میں ہم نے ایک دن ضلعی تعلیمی دفتر کا رخ کیا تو واپسی پر ہمارا عالم وہی تھا جو رنگ پُور سے واپسی پر رانجھے جوگی کا تھا یعنی ہم بامراد و کامران لوٹے تھے اور ابھی گھر پہنچنے پر اچھی طرح ستانے بھی نہ پائے تھے کہ ہمارے سہ بارہ تقرر بطور مدرس کے احکامات نے ہمارے دروازے پر آن دستک دی اور تقرر ہمارا اسی سکول میں اور اسی پوسٹ پر ہوا جنہیں چھوڑے ہمیں صرف چار مہینے ہوئے تھے۔؎
وہی جامہ کہ مرے تن پہ نہ ٹھیک آتا تھا
وہی انعام ملا عاقبتِ کار مجھے
چنانچہ ہم نے اپنا مخصوص ساز و رخت سنبھالا اور؎
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
کا کھسیانہ سا ورد کرتے ہوئے اسی چاردیواری میں پہننچ گئے جہاں کچھ مدت پہلے ہماری عمرعزیز کے پورے تین سال گزرے تھے۔
سکول میں ہمارے پہنچنے سے پہلے ہماری تعیناتی کی خبر ابھی پہنچی تھی، لہذا جب ہیڈماسڑ صاحب سے ملاقت ہوئی تو کچھ یوں جیسے دوملکوں کے کونٹرپارٹس آپس میں ملتے ہیں، وہ چہک چہک کرادھر اُدھر کی با تیں کر رہے تھے اور ہم مچل مچل کر انہیں جواب دے رہے تھے۔ لیکن جب بالآخر ہمیں اس امر کا خیال کرنا ہی پڑا کہ خیر سے اب زمانہ ہمیں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں کر پائے گا تو جیسے سانپ ہی نہ سونگھ لیا، یکا یک اپنے سر پر طرے والی پگڑی جمائی۔ انگلیوں میں سگریٹ کو اسی روایتی انداز سے پکڑا جس طرح بلی اپنے بچوں کو دانتوں میں دبا لیتی ہے۔ اور اپنے ایک معتمداستاد کو بلا کر یہ کہتے ہمیں ان کے حوالے کر دیا کہ انہیں ان کا متروکہ چارج واپس کر دیجئے اور کاغذات وغیرہ مکمل کر کے مجھے دکھا ئیے۔
ہر چند ہمارا یہ استقبال کوئی اچھا نہیں تھا۔ پھر بھی محض ان کی بیزاری سے ہم ملازمت سے باز رہنے کا فیصلہ تو کرنے سے رہے تھے چنانچہ ایک بار پھر گزشتہ شب و روز کی چکی کا گالا بن کر ہم دوبارہ اپنے کولہو میں جُٹ گئے۔
ہمارے اور رئیس مدرسہ کے درمیان کشیدگی کی جو فضا ازمنہ قدیم سے چلی آ رہی تھی اس کی صحت میں ابھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ لہذا چھوٹی موٹی کھٹ بٹ کے واقعات تقریباً روز ہی وقوع پذیر ہونے لگے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہیڈماسٹر صاحب نے بہراعتبار ہمیں اپنا حریف سمجھ لیا۔ حالاں کہ بائیس افراد کے عملے میں تین چوتھائی حضرات موصوف کے مزاجِ عای کے دبی دبی زبان میں شروع ہی سے شاکی تھے یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی زبان آداب عشق کی پوری پوری طرح پابند تھی، ورنہ ان جذبات کا اظہار مگعدد با رہو چکا ہوتا اور گار نہیں ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ سکول میں ون پارٹی رولکا ہی دور دورہ تھا بلکہ حالات و قرائن سے مخلوط حکومت ہی کے آثار نمایاں رہتے تھے۔
واقعات کی تفصیل میں جنا تو فضول ہے، ہاں اتنا ہوا کہ جب دو اڑھائی برس کالاواپک چکا تو ایک دن اچانک ہمارے ایک نائب ضلعی معائن دورے پر سکول آ گئے، افسر معائن کا سکول میں کیا پہنچنا تھا گویا کسی فاتح ملککا نمائندہ کسی مفتوحہ علاقے میں آدھمکا، چاروں طرف سرگوشیاں سی ہونے لگیں اس لئے کہ مذکورہ افسر معائن سکول کے معائنے کو نہیں آتے تھے۔ بلکہ انہیں سکول کی فضا کا تجرزیہ بھی درپیش تھا، اور تجزیہ وہ تھا جو سرکاری زبان میں تفتیش کہلاتا ہے۔ یہ تفتیش ایک درخواست پر کی جانے والی تھی۔ جو سکول کے کسی نیم خبطی طالب علم کے دستخطوں سے محکمے کو پہنچی تھی جو سکول کا بہرحال ایک سینئر طالب علم اور قصبے کے ایک متمول باپ کا بیٹا تھا۔
تفتیش شروع ہوئی تو جو استاد بھی اندر سے ہو کر باہر آتا ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہی نکلتا اس لئے کہ درخواست پ دستخط تو لاریب اسی طالب علم کے تھے جن کے متعلق اسے یقین نہ تھا کہ اس سے یہ دستخط کس نے کب اور کیسے کرائے تھے لیکن اساتذہ کو سراپا تصویر بنانے والی وہ تحریر تھی جو اس درخواست کے دام ن میں لبالب موجود تھی، اور جسے یقینا ہیڈماسٹر صاحب کے کراماً کاتبین میں سے کسی ایک نے تیار کیا تھا جو دوسروں کی نظر میں اور اپنے نزدیک بھی یقینا ہم نہ تھے بلکہ موصوف کا کوئی مقرب فرشتہ ہی ہو سکتا تھا اور فرشتہ بھی وہی جو سرد و گرم چشیدہ اور جہاں دیدہ ہونا چاہئے تھا۔
اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ، لیکن وہ خفا مجھُ پرہوا
تاہم عملے کیاکیس ارکان جب اس سرکاری ڈاکٹری جیسے تفتیشی مرحلے سے گزر چکے اور اپنی ذاتی مجبوریوں کے باعث ہر عریاں حقیقت کو اپنی کھوٹی کھری سوگندو ں سے اپنی ڈپلومیسی کا لباس پہنا چکے تو ہم پرکھلا یہ کہاس خردمندانہ تفتیش میں ہم اہل جنوں کا نام کہیں شامل نہیں ہے بلکہ ہمیں اس سے برتر درجہ ملا ہے یعنی درخواست کے بے نام مدعی ہونے کا۔
بُت خُدا ہوں کہ نہ ہوں ہے مگراتنی توقیر
بُتکدہ آج بھی کعبہ ہے مسلمانوں کا
آخر جب تفتیش کلیۃً ملزم کے حق میں تکمیل پا چکی اور باری اصل مشتبہ کی آئی یعنی ہمیں طلب کیا گیا تو ہم بالکل مادرِ مسیح کی طرح افسر معائن کے پاس جا پہنچے جو ایک پلنگ پر براجمان تھے اور جسکی پائنتی بیٹھنے پر ہمیں یوں جھڑک دیا یا جسے ہم مشتبہ تو تھے ہی توہین عدالت کے مرتکب بھی ہو چلے تھے۔
یہ اپنی وضع اور یہ دشنام مے فروش
سن کر جو پی گئے یہ مزہ ’’ بے بسی‘‘ کا تھا
موصوف نے ہمارے ہاتھ میں قلم تھمایا اور ہمیں ہماری زندگی کی ایسی املا لکھائی جس کے نفس مضمون کا مذکورہ واقع سے دور کا تعلق بھی نہ تھا پھر اسے عینک کے متعدد زاویے بد بدل کر دیکھا، پرکھا، ہمارے چہرے کے تاثرات کو گھورا اور پھر فرمانے لگے یہ درخواست آپ نے لکھی تھی۔
’’ہم نے عرض کیا ہاں حضور، درخواست نہیں، یہ املا ہم نے ضرور لکھی ہے‘‘
جس پر انہوں نے کچھ تنبہی کلمات کے ساتھ اپنے تھانے کی حدود سے ہمیں چھٹی دے دی۔
شام ہوئی تو پتہ یہ چلا کہ اس ڈرامے کے ہیرونی الواقعہ ہمیں قرار دئیے جا رہے ہیں جس پر ہم قدرتی طور پر سیخ پا ہوئے اس لئے کہ جسمانی طور سے ہم ہزار نحیف و نزار سہی، مارل کریج……… ہم میں ہمیشہ اتنا ضرور رہا ہے کہ ہم اپنی یادداشت میں سے کوئی ایسا واقعہ ٹریس نہیں کر سکتے جس میں ہم نے کبھی کوئی منافقانہ کارروائی کی ہو چنانچہ ہم نے اپنی آستینیں تو نہ چڑھائیں لیکن پیشانی کے بل ہم سے مٹائے نہ جا سکے جنہیں چہرے پر سجائے ہم ہیڈماسٹر صاحب کے خلوت خانے میں جا دھمکے اور لگے ہاتھوں گفتگو قبل دوپہر کے واقعہ سے متعلق شروع کر دی۔
یہ بھی عجب ستم ہے حنا تو لگائیں غیر
اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ
ان بے ہنگم مذاکرات میں کئی نازک مقامات بھی آئے تاہم سب سے نازک مرحلہ وہ تھا جب ہم نے انہیں بالآخر اس امر کا کھلا چیلنج دے ڈالا کہ حضرت آپ ہمارا نام شاملِ تفتیش افراد میں بطور مشتبہ ضرور شامل جانئے لیکن ایک بات یاد رکھئے کہ ایسا کرنے سے ان ساری فرضی سوگندوں کا پول کھل جائے گا جو آپنے استحصالی انداز میں لوگوں سے لے رکھی ہیں۔
اچھا نہ ہو گا میں بھی اگر بولنے لگا!
میری زباں سے زنگ نہ چپ کااتارئیے
اور اگر نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو؎
زبانِ خنجر جو چپ رہے گی لہو چپکارے گا آستیں کا
آپ کا ذاتی ریکارڈ آپ کے حق میں کبھی خاموش نہیں رہے گا۔ موصوف نے جب ہمیں سچ مچ برہم و برانگیختہ دیکھا اور ایک نظر اپنے نامہ اعمال پر بھی ڈالی تو یکایک سنگ سے موم ہو گئے۔ اور ہمیں اپنی بغل میں لیتے ہوئے کہنے لگے نہیں بیٹے ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے ہرگز آپ کو مشتبہ نہیں گردانا۔ یہ تاثر محض افسر معائن کا ہے۔ سو اس سے اس کا یہ حق نہ چھینئے ، رہی یہ بات کہ اس سے آپ کی ملازمت پر کوئی آنچ آئے گی اس صمن میں آپ کو سوگند مجھ سے لینا چاہتے ہیں میں اس کے لئے حاضر ہوں۔
تلوار کی تیز دھار تھا جو
آخر کو خاکسار نکلا
ہم کو مُجرم نہ تھے اور اپنے دل کا غُبار ہی نہیں نکال چکے تھے بلکہ اپنی بیگناہی کو تسلیم بھی کرا چکے تھے، ہیڈماسٹر صاحب کے پاس سے تو واپس آ گئے لیکن رات بھر افسر معائن کی جانب سے اپنی پائنتی بدر ہونے کی فرعونی حرکت ہمیں کھولاتی رہی جس کا آسان اور مروّجہ حل ہم نے یہ نکالا کہ اگلی صبح جب افسرمعائن ہمارے کمرے میں بغرض معائنہ تشریف لائے تو ہم اپنی سطح سے تیس چالیس سیڑھیاں نیچے اُتر کر بشمول طلبائے جماعت اپنی نشست سے سرکنے تک نہ پائے۔
نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ سنجیدگاں لیکن
وہ مجھ کو گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں؟
اس کا اثر انہوں نے کیا لیا، یہ بات تو دُہرانے کی نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعد کے کئی مہینے اپنی اس حرکت کا کچھ اس طرح کا تاسف ہمیں دامن گیر رہا جس طرح کسی تھڑ دلے نے اپنے حریف کے منہ پر تھوک دیا ہو اور بعد میں مسلسل پچھتا رہا ہو۔
یہ مرحلہ تو گزر گیا لیکن اس کے بعد کیاثرات کچھ زیادہ ہی نمایاں نکلے جن کے پہلو سے پھر ایک بڑے واقعہ نے جنم لیا۔
جواب دیں