ہمارے سپلیمنٹری امتحان کا نتیجہ صد فیصد غور یا نہ بلکہ جدید تاریخی اصطلاح میں ’مانک شاہانہ‘ رہا۔ ہر چند ہم نے وہ مانک شاہی طریقے ہرگز استعمال نہ کئے جو آج کل امتحانات میں تھوک کے حساب سے مرّوج مشہور ہیں۔ (یعنی یہی کہ سپرنٹنڈنٹ امتحانات کو گھیر گھار کے اپنے نرغے میں لے لیا جائے اور جب وہ پھڑکنے تک نہ پائے تو چپکے سے اپنی منشا کے مطابق اپنی زندگی کی پراگریس رپورٹ میں اپنی بے مثال فتح کا اندراج اس سے کرا لیا جائے) تاہم امتحان اور نتیجے کے اعلان میں جو بُعد اُن دنوں مروّج تھا اور شاید اب بھی ہو ہمیں ضرور بھگتنا پڑا۔ ہم کہ آغازِ سفر ہی میں اپنے کارواں سے پَچھڑ گئے تھے اور
یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ منزل دو رشد
کے عملی تجربے سے دوچار تھے، ہمارے اندر کی دنیا بھلا پُرسکون کیسے ہوتی ۔سو نتیجے کے اعلان تک کا عرصہ ہمارے دل و دماغ میں بیک وقت جغرافیائی و انتقادی اصطلاح کے مطابق شکست و ریخت کی جو کیفیت پیدا کر رہا تھا، ہمارے اعصاب اُس کے متحمل نہ ہوئے اور ہم نے اُنہیں اِس کیفیت کا متحمل بنایا بھی تو کچھ اِس طرح… کہ بہر اعتبار نوعمری کے باوصف ہم عارضہ ٔاختلالِ اعصاب میں مبتلا ہو گئے، جسے ہمارے ایک دوست اور… یکے از نو واردان قافلۂ شفا۔۔ حکیم نے بہ تمام دردمندی و نیازمندی اختلاجِ قلب کا نام دے ڈالا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی آریوویدک فارماسٹیکل لیبارٹری میں تیّارشدہ ۔۔۔۔۔۔اپنے ہرکشتۂ نیم کُشت (یا نیم پخت) کی پہلی چٹکی ہمیں کھلائی اور ہماری جانِ ناتواں پر اُس کشتے کا ردّعمل دیکھ کر اُسے رہی سہی آنچ (جس کی کسر کا اس میں ہر بار رہ جانا ایک فطری امر تھا) دے دے کر ہمارے بعد نوازے جانے والے مریضوں کی جیبیں اور اپنی طبیعت ہلکی کرنے کے جملہ انتظامات بہر لحاظ مکمل کئے
ادھر ہم تھے کہ ان کا اوّلین تختۂ مشق تھے‘ روز بروز اُن کی اِس مشق ناز و نیاز سے اُدھڑتے چلے گئے۔ (کہ خون دو عالم تو کسی کی گردن پر تھا نہیں) تاآنکہ انہوں نے ہمیں اپنے ریکارڈ میں لاعلاج قرار نہ دے ڈالا۔
اُٹھتے ہی شورِسیل نے گم کر دیتے ‘ حو اس
لائے جو ہوش میں وہ تھپڑے تھے آ ب کے
حکیم موصوف کے حلقۂ طبابت سے نکلے تو ایک اور کھجور میں اٹک گئے۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کی تجربہ تجربہ اندوختہ دانائی کا رخ جیسے یکبارگی ہماری جانب پھر گیا چنانچہ ہمارے حق میں فیصلہ یہ ہوا کہ ہو نہ ہو ہم پر یہ اثر کسی نظرِ بد کا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ نظرِ بد اگر ہمارے ایف اے کو زہر مار کرنے کے بعد تعلیم یافتہ ہو جانے کے باعث ہمیں لگی تھی پھر تو سراسر خیالی اور فرضی تھی۔ اس لئے کہ اس کا توڑ ثانوی تعلیمی بورڈ نے کمپارٹمنٹ کی صورت میں ہمیں پہلے ہی فراہم کر دیا تھا اور اگر کسی اور سبب سے تھی تو اس کا اندازہ کچھ انہی بڑی بوڑھیوں کو تھا جن کی یہ تشخیص تھی۔
آدمی بھی کہ ہے زندانِ تمنا کا اسیر
کام جو کرنا نہ چاہے ‘وہی ناچار کرے
ہمارا برخوردارانہ فریضہ اگر کچھ تھا تو اس نازک مرحلے پر بس یہی تھا کہ نصابِ طب کے پرائیویٹ امیدوار اور اپنے دوست حکیم کی ابتدائی و انتہائی طبی مشقوں سے جان برہونے کے بعد ہم ان ۔۔’سپیدو سیاہ دیدہ‘ خواتین کے چارہ ہائے بے سُود کا تختۂ مشق بنتے،لہٰذا بقولِ فراز
زخم جتنے تھے وہ سب ‘ منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
ہم نے اس فریضے کی بجاآوری میں اپنے دو ہونٹوں سے’ سِی‘ تک نہ کی اور ماشوں تولوں کے حساب سے تعویذوں پر مرقوم طرح طرح کے جیومیٹریکل ہندسوں اور حرفوں کی سیاہی گھول گھول کر پیتے رہے۔
کون سیاہی گول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی
قتیل شفائی آج کی طرح ان دنوں بھی ہم سے قطعی دور تھے (کہ رائٹرز گلڈ کے ممبر نہ ہم اُن دنوں تھے نہ اب ہیں‘درمیان میں رہے ہوں تو الگ بات) اور نہ اُن سے اپنے حق میں اِس شعر کی تشریح ضرور کرواتے۔
ہمارے حلقوم میں اترنے والے تعویذوں کی سیاہی ہمارے نوشِجاں کردہ طبی نسخوں جتنی ہو گئی۔ لیکن
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
کا ورد ہم سے نہ چھوٹا اور اگر کچھ ہوا تو یہ کہ……
شعلہ سالپک جائے ہے آواز تو دیکھو
یہ شعلہ کہیں باہر سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی اندر سے ہماری جانب لپکتا دکھائی دیتا رہا اور وہ بھی آتشِخاموش کا نہیں آتشِ گویا کا یعنی درونِ سینہ کا راز ہر لحظہ طشت ازبام رہنے لگا کہ دھڑکن کے ساز پر جیسے ہوا کا ہاتھ تھا جو کسی آن بھی اُس ساز کو چھیڑنا نہ بھولتی یہاں تک کہ……
اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے
ہمیں اُس سازکی لَے سے گوش گردانی کے لئے سو سوحِیلے تلاش کرنے پڑتے جن میں سے ایک ابتدائی حِیلہ یہ بھی تھا کہ ہم بھیڑوں کے حلقۂ ارادت میں بھی بالارادہ شامل رہے۔
کہتے ہیں اس حیوانَ شریف پر اگر کوئی درندہ یورش کرے تو و ہ ا پنی آنکھیں میچ لیتی ہے محض اس تشفی کو کہ بھلا وہ کب دیکھ رہی ہے کہ اُسے کسی کے پنجہ ٔاستبداد نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے گویا اس کارروائی میں وہ سراسر بے قصور ہے۔
ہم بھی اپنے بے قصور ہونے کا ثبوت کچھ اس طرح دے رہے تھے…… کہ اندر کے کھڑکار سے چشم پوشی بلکہ گوش پوشی کی غرض سے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس ٹھونس کر سویا کئے۔ شکر اس بات کا ہے کہ ہمارے ضمیر میاں کسی پوشیدہ مرض سے دوچار نہ تھے۔ ورنہ ہمارا حال بھی دو بیویوں میں گھرے کسی نامراد خاوند جیسا ہوتا۔ اور اچھا ہوا کہ ہم شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے کی سعادت سے محروم رہے۔
سو صاحبو! اپنے جی کی تہ میں اُترے ہوئے تضادات کا جو زہر ہمارے دلِناداں کی رگوں میں سما گیا تھا۔ اُس کا نکلناتو محال تھا کہ ہم اس کے وجود ہی سے آگاہ نہ تھے۔ اس کے نتائج البتہ ہمارے سامنے تھے۔ جنیں بھگتنے کے لئے ہم یہاں تک تیار ہو گئے کہ بہ فکرِ خویش بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
کل تیکن تے زہر سی دُکھاں دی کڑوان وی
اج میں سمجھاں موت وی، ہے اک جام شراب دا
یعنی حالات کے مقابلے کے لئے خود تو کمرِ ہمت باندھی ہی تھی اس گورکھ دھندے کا پرچار بزورِ نطق بھی کر نے لگے۔ حالانکہ یہ شاعرانہ روایات کی سراسر خلاف ورزی تھی۔
اس مقام پر ہمارے حالات کی جو کھڑکی باہر کو کھلتی تھی اس کی ایک جھلک آپ کو دکھائی جائے تو کچھ یوں تھی کہ ایف اے تو ہم نے کر ہی رکھا تھا۔ کالج کا رخ ہم کرنے سے رہے تھے کہ ایک تو دودھ کے جلے تھے چھاچھ کو پھونک پھونک کر کیوں نہ پیتے اور دوسرا بقول باقی صداقی ہماری بچگانہ آرزوؤں کی ’’ گَڈی بھی اپنے سٹیشن سے لنگھ چکی تھی اور ٹیشن ’’بھاں بھاں‘‘ کرتا ہمیں صاف دکھائی دے رہا تھا اور ویسے بھی خرمنِ علم سے جتنی کچھ جنس ہم نے ’’تِیلاتِیلا‘‘ سمیٹ لی تھی۔ زندگی کے رن میں کودنے کے لئے کچھ ایسی کم نہ تھی کہ اسی مقدار کی متاع کے طفیل ہمارے کتنے ہی ہمجولی اپنے کندھوں پر پاکستان فورسز کے سٹارز لگا کر قدم قدم پر سلیوٹوں کی وصولی کے مقام تک پہنچ چکے تھے۔ ہمارے عزائم اگرچہ ایسے شاہانہ تو نہ تھے۔ تاہم کچھ نہ کچھ تھے ضرور۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ متاعِنامراد (جسے ابتداً محض لگن کا نام دیا جاتا ہے) جہاں مرزے کی پیوندکاری جَنڈ سے کراتی ہے، وہاںآرمسٹرانگ اینڈ کمپنی کو ارضِ ماہتاب سے بھی زندہ سلامت زمین پر لے آتی ہے اُس متاعِ نامراد کے ہاتھوں ہم پر کیا کچھ گزری۔ مرزا خان ہوئے یا آرمسٹرانگ اس فیصلے کی مثل تو ابھی نامکمل ہے اس لئے کہ حلقہ ٔطا لب علمی سے نکلنا ہمیں گوارا نہ تھا اور جادۂ طالب علمی پر ہم گامزن نہ تھے لہٰذا ہمیں تلاش تھی تو کسی ایسی راہ کی جو مقتل سے بچ کر گزرنے والی ہوتی اور جس پر چل کر ہم خوش و خرّم بھی رہتے اور بامراد بھی لیکن شومی ٔ قسمت کہ یہ راہ ہمیں سمجھائی بھی دی تو کچھ ایسی کہ
صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے
سو صورت حال یہ تھی کہ ہم یا تو دیوبند جیسے کسی بڑے دینی مکتب کا رُخ کرتے اور دنیائے دُوں کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ نجاتِاُخروی کی خواہش بھی پوری کر لیتے جو تقسیمِملک کے باعث ازخود حدِامکان سے باہر تھا یا اگر فل فلیجڈ زندوں میں ہوتے تو۔۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرتے
یعنی یہ کہ امتحان بازی کے شغل میں جُٹ جاتے جس کی آگے دو ہی صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ السنہ شرقیہ کا (جن میں عربی کے علاوہ اردو، فارسی، اور پنجابی بھی دخیل تھیں) کوئی امتحان داغ دیتے اور پھر تنہا انگریزی کی ڈفلی بجاتے بجاتے گریجوایٹی کی منزل تک پہنچ جاتے یعنی Taught سے Teacher ہو جاتے اور بغیر کسی پڑاؤ بلکہ اسقاط کے پورے نو ماہ کی سروس کے بعد بی اے کی فیس داخلہ بھیجنے کے استحقاق کا اعلان کر دیتے کہ طوقِغلامی کی یہ رسی بھی اپنے دوسرے ہم وطنوں کے ہمراہ ہمارے گلے میں تھی جسے توڑ پھینکنے کی ضرورت کبھی کسی کو محسوس ہی نہ ہوئی اور ہم کہ اس لعنت کا احساس رکھتے تھے بقولِ فیض کیا تھے۔
جس طرح تنکا سمندر سے ہو سرگرم ستیز
جس طرح تیتری کوہسار پہ یلغار کرے
چنانچہ ہم نے یلغار بھی کی تو اس کا رخ بالآخر اپنی ہی جانب موڑا۔ السنہ شرقیہ سے تو سرِدست ہم تمام تر وابستگی کے باوجود کوئی امتحانی رشتہ نہ گانٹھ سکے۔ البتہ بلاکسی تاخیر کے ہمیں اگر بالطبع کچھ پسند آیا تو وہ سکول ماسٹر بن جانا ہی تھا۔
جِس دے ہتھ‘ جِس دی بانہہ آئی
لَے گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔زوروزوری
جواب دیں