اب ذرا پھر چلئے۔آپ کو وہاں لے چلیں جہاں ہماری ملازمت کے ہر دن کے اٹھارہ گھنٹے گزرا کرتے تھے، ہماری مراد یقینا اپنے غریب خانے سے ہے۔ لیکن یہ ذکر اس بالا خانے کا نہیں جو ہمارے حلقۂ اورادِ شعری میںآچکا تھا بلکہ ایک اور چوبارے کا ہے جو نسلاً اس چوبارے کا برادرِبزرگ بھی تھا کہ اور ماحول کے اعتبار سے خاصا بوقلمون بھی اس لئے کہ اس کی آغوش میں صبح مسانت نئے مناظر کسی بد قسمت ملک کی روز دہاڑے کی سیاسی تبدیلیوں کی طرح ہر آن بنتے بگڑتے رہتے تھے بلکہ بقول استاد پّراُن مناظر کا خلاصہ شورش کاشمیری کی کسی کتاب کے سرنامے سے جا ملتا تھا ہمیں استاد پّرسے تو اتفاق نہ تھا کہ حضرت تیسری بیوی کا قُل کرا کے اب چوتھی بار اپنے ہاتھ پیلے کرانے کے درپیتھے تاہم اس چوبارے کیایک سمت ایسی تھی جہاں کی صورتحال لی وکالت کرتے ہمیں آج بھی ایک طرح کا خوف محسوسہوتا ہے اور وہ سمت وہ تھی جہاں ہر پل چلتے ہنڈولے کے جھولوں جیسا منظر سامنے رہتا یہ الگ بات تھی کہ یہ سین گلوب کے اس حصے کی عکاسی کرتیتھے، جو سورج سے پردہ کئے ہوتا ہے اور وہ گل بوٹے جن کے حسن لا ابال سے یہ سین مرتب ہوتے تھیایک ایسیباپ کی دخترانِ نیک اختر تھیں جو اپنے باپ کی اولادِ نرینہ کی آرزو جستجوئے بے پایاں میں ایک فطری تسلسل سے آتی تو رہی تھیں لیکن اب کہیں جانیکی راہ نہیں پارہی تھیں۔ شنید یہ تھی کہ ان کے آبا حضور اولاد نرینہ سے مستقل محرومی کے باعث اس قدر سنکی ہو گئے تھے کہ اپنی یہ متاع کسی اور خوش نصیب کی اولادِ نرینہ کے حوالیکرنے سے الرجک تھے اور یہ الرجی ایسی تھی جس کا علاج شاید
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پٹیا کر
خاندانی منصوبہ بندی والوں کے پاس بھی نہیں تھا اور اگر نہیں تھی تو ہم ’’تریاکلوں‘‘ کو اس سے غرض بھی کیا ہم تو اس صورتحال کے محض ایک خارجی شاہد تھیکہ ان بنات النعش ارضی میں سے ایک نہ ایک ہر لحظہ مکان کی بالائی فصیل پر حاضر و ناظر رہتی اور کھلے آسمان اور جیتی جاگتی راہوں کے جائزے پر مامور اس وقت تک مندر کی مورتی بنی اپنی جگہ سے نہ ہلتی جب تک دوسریوں کے جی میں یہی ولولہ پیدا نہ ہوتا اورجب دوسری آچکتی تو پہلی اس کیاسی جذبہ کی تسکین کے احترام میں مسجد کے غسل خانے کی طرح اپنی جگہ خالی کر دیتی لیکن مناظر کی یہ زنجیر کبھی ٹوٹنے نہ پاتی کہمذکورہ بنات النعش ارضی تعّدد کے اعتبار سے دوچار نہیں بلکہ پوری سات تھیں، اور یوں سمجھئے کہ ساری کی ساری کنگ سائز بھی، کنگ سائز اس مفہوم میں کہ خیر سے سبھی کی سبھی بالغ النظر تھیں یا نہیں بالغ البدن ضرور تھیں اور صورت حال یہ تھی کہ ان کی وید سے کسی دل کو دھڑکا یا آنکھ کو پھڑکا لگتا نہ لگتا ان کے چہرے ہائے از کار رفتہ کے عکس سے ضیائے مہر و ماہ کو گہن لگ جانے کا کھٹکا ان کے ہر ناگہانی ناظر کو ضرور لگا رہتا۔
ہمارے چوبارے کی ایک سمت اور بھی تھی جہاں سے باہر کے گاہ گاہ کے کچھ مناظر دیدہ و دل پر از خود ہی کھلنے لگتے ان مناظر کا کینوس ایک اور بالائی مکانن تھا۔ جس میں ہم جیسے تو نہیں البتہ باہر ہی کے کچھ لوگ آباد تھے جو کم از کم ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے کے مقیم تھے ان کے کرائے کا مکان بھی ایک فصیل رکھتاتھا جسکے کنارے لبان مونالینزا کی طرح کچھزیادہہی آباد رہتے۔ ہمیں اس امر کا احساس ہونے میں کچھ مہینے لگے۔ اس لئے کہہم ٹلّے کے جوگی نہ تھے، استاد تھے اور اپنی حدودکو اچّھی طرح پہچانتے تھے لیکن جب کبھی ہمیں دوھپ تانپے یا تازہ ہوا کھانے کا شوق چراتا اور اس غرض کو صحن میں کسی کھری چارپائی پہ دراز ہوتے تو……
کچھ توہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں،
…… پس فصیل کچھ پرچھائیاں سی حرکت کناں نظر آتیں، اور یوں ہوتا کہ یکایک چوڑیاں چھنکاتا کوئی دست سمیں فصیل کے ادھر سے اٹھتا اور لمحوں تک کے لئے ایک ہی جگہ ہوا میں ساکت ہو جاتا نم آلودہ اندھیرے کی بوچھاڑ جیسی کافر زلفیں فوارہ نما دائروں میں لہراتی دکھائی دیتیں۔ کبھی ممٹی کی زنجیر کے ساتھ لٹکتا ہوا کوئی گلدستہ نظر میں اتا اور کبھی کوئی رومال کسی باغی موج کی طرح اپنا سر اٹھاتا اور غائب ہو جاتا۔ گویا علم معاشقہکی لغت ہمارے سامنے ورق ورق بکھرتی رہتی لیکن ہم کہ جذبات ناپختہ کی کھیتیتھے۔ ان آداب کی نوعیت سے یکسر نابلد رہے مگر جب ان خوش ادائیوں میں مہینوں کا تواتر پیدا ہونے لگا تو اس جانب اٹھنے والی نگاہیں؎
وہ کھینچتی ہے جسے پینگ پر بزورِ شباب
نگاہ چپکی اسی نصف دائرے پر ہے
کسی دائرے سے تو نہیں فصیل کے ساتھ کچھ کچھ ضرور چپکنے لگیں تب ہمیں احساسہوا کہ ہمارے اندر بھی کسینامعلوم توڑ پھوڑنے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ جدید ادب میں توڑ پھوڑ کی بحث ذرا بعد میں چلی ورنہ شاید اس طرحکی دو چار گرما گرم دساوری و نیم دساوری بحثوں میں شرکت کے بعد اس عارضے کا قلع قمع از خود ہی ہو جاتا لیکن جس مشکل کا ہمیں سامنا تھا۔ اس سے بچاؤ کی ہمارے پاس دو ہی تدبیریں تھیں ایک تو یہ کہ ہم اپنا مکان بدل لیتے اور اپنی استادانہ عظمت و آبروکو کسی ناگہانی ریزش سے بچا لیتے اور دوسری یہ کہ چوبارے میں مفرور ملزموں کی طرح راتوں رات آیا کرتے اور گجردم رخصت ہو جایا کرتے، لیکن فساد یہ تھا کہ ان دونوں شریفانہ راکیب عافیت پر عمل پیرا ہونا بالفعل ممکن نہ تھا اس میں شاید ہمارے کسی اندر کے فتور کا بھی دخل ہو گا لیکن بظاہرہم نے اس عاجزی کا سارا الزام حالات کی ناسازگاری کے سر تھوپ رکھا تھا یعنی کہ؎
دام ھوڑے ہیں تو ہر نعمت سے کیجئے احتراز
دھوپ سے محروم گھر ہی میں گزارا کیجئے
چنانچہ وضع احتیاط ہی وہ واحد راستہ دکھائی دیا جس پر رواروی میں ہم چل تو دئیے لیکن کچھ دنوں کی مسافت کے بعد ہمارا تو جیسے دم تک گھٹنیلگا اور ادھر اشارات وکنایات کی وہ فراوانی کہ اگر پیغام رسانی کو کبوتروں کی دستیابی ممکنہوتی تو ہمارا چوبارہ صبح و شام ناصر کاظمی کا چوبارہ بنا رہتا اور جب یہ سارا کچھ نہ ہوا تو ہوا یہ کہ ہمارے چوبارے کا صحن غیر مری ابابیلوں کی جائے یلغار بن گیا۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران میں وقفوں وقفوں کے بعد کنکریاں چھاپہ ماروں کے گولوں کی طرح چٹاک پٹاک ہمارے سامنے آ آکے گرتیں اور ہماری تمام تر احتیاط کا شیشہ چکنا چور کر دیتیں اور جب نگاہ اٹھتی تو وہی اٹھکیلیاں کرتے مناظر؎
اُس در سے سبہے گا تری رفتار کا سیماب
اِس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگ حنا کی
سلسلہ در سلسلہ مرتب ہونے لگتے۔ ہمیں اپنے یُوسفِ ثانی ہونے کا واﷲ کوئی وہم نہ تھا لیکن صُورتِ حال ہی کچھ ایسی تھی جیسے ہمیں آئینے میں ہر روز جو چہرہ نظر آتا تھا وہ، وہ نہیں تھا جو باہر والوں…… کم سے کم فصیل سے ادھر کے مکینوں کو دکھائی دیتا تھا۔
ہم نے اس نازک مرحلے پراپنے ساتھی کو بھی یہ احساس دلایا کہ ہو نہ ہو اس ساری جنّاتی کارروائی کا رُخ ان ہی کی جانب ہے جس کا ٹکا سا جواب انہوں نے یہ دیا اور بڑا معقول دیا کہ وہ تو جب بھی جائے سکونت پر آتے ہ۹یں چمگادڑں کے سائے ہی میں آتے ہیں۔ دنکے دوران میں انہیں اپنے ڈیرے پر آتیان کے کراماًکاتبین نے دیکھا ہو تو دیکھا ہو۔ کسی اور نے نہیں دیکھا لہذا اس جن کا تعلق بہرحال ہماری ذات باصفات ہی سے ہونا چاہئے تھا جس کے لئے قبل اس سے کہ ہم کوئی تعویذ دھاگہ تلاش کرتے۔ کنکریوں کی چاند ماری کا انداز از خود ہی تعویذ دھاے کی صورت اختیار کرنے لگا۔
تُجھ دہن کا کلام وہ بُوجھے
حق نے بخشا ہے جس کو فکرِ عمیق
کہ اب تو ہر روز ایک آدھ کنکری رجسٹرڈ پارسل کی طرح کاغذوں میں ملبوس صورت میں بھی آنیلگی۔ جسے کھول کر دیکھنا ہم پہ فرض نہیں تو واجب ضرور ہو جاتا اور جب یہ ملفوف کھلتے تو صفحہ قرطاس پہ حروف کی حدت، جذبات کی شدت اور نامعلوم لمس کی خوشبو سے ہماری ساری کی ساری خوابیدہ حسین مدفون سرنگوں کیطرح ایک ایک کر کے بیدار ہونے لگتیں، تب ہم پرکھُلا کہ حضرت میر نے یہ کہہ کر محض نخرہ ہی کیا تھا۔
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
میر کی عاشقی اگر محض عاشقی تھی، پھر تو یہ بات کچھ قرینِ قیاس ہے لیکن اگر اس عاشقی کے پس منظر میں کسی کو ان کی شاعری بھی نظر پڑتی تھی پھر گفتہ میر محض پروپیگنڈا ہے۔ اس لئے کہکنکریوں کے وسیلے سے ہم تک پہنچنے والی تحریروں سے ہم پر اپنی وہی خوبی یا خرابی کھلی جو میر صاحب میں عاشقی کے علاوہ پائی جاتی تھی یعنی فصیل سے ادھر بسنے والی نوخیز و مضطرب دوشیزہ کو ہم سے زیادہ ہمارے شعر سے دلچسپی تھی جو بے چارہ خود ابھی عالم شیر خوارگی میں تھا بہرحال اپنے صحن میں لگائے گئے کسی پودے کا پہلا ثمر اور وہ بھی بہرلحاظ کچّا کون کسی خودنما کو توڑنے دیتا ہے چاہے وہ خود نما زلیخا ہی کیوں نہ ہو۔
تُوں کُڑی ایں لکھ کروڑ دی
جے میں سولی چڑھان تیرے نام تے
تے توں ہس کے کولوں دی لنگھ جائیں۔
چنانچہ ہم نے بھی اپنے آپ پر یُوسف ثانی ہونے کے گمان کو یقین میں بدلتے ہوئے وہی راہ اختیار کی جو ایسے موقعوں پر ہر یُوسف اختیار کرتا ہے اور اپنے کھاتے میں فرار کی بدنامی لکھواتے اس چوبارے سے کوچ کر آئے گویا آسمان سے زمین پر آگئے۔
پس خوشبو بھی مرگِ گُل کا منظر دیکھتے ہیں ہم
بہت مہنگا پڑا ماجدؔ ہمیں صاحبِ نظر ہونا
جواب دیں