ایف اے کے نتیجے کا اعلان ہمارے لئے اعلانِ جنگ سے کسی طرح کم نہ تھا اور یہ اعلان ہم نے بے گناہ عوام کی طرح اپنے گاؤں ہی میں تیسرے دن پہنچنے والے ایک روزنامے میں پڑھا مگر جب…

چٹھی آئی ماہیے دی ……ٌ

تو اس میں ہمارا نام کہیں نہیں بولتا تھا۔آخر جب دروازۂ خاورکُھلا یعنی نتیجے کا کارڈ موصول ہُوا تو ہمیں بروئے اخبار اپنی صد فیصد ناکامی کے مقابلے میں بروئے کا رڈ چوراسی فیصد کامیابی پر کچھ زیا دہ ہی مُسرت ہوئی کہ ہم ناکا م تھے تو ساڑھے چار میں سے صرف ایک مضمون میں اور کو ن کہہ سکتا ہے کہ اسی فیصد کامیابی معمولی کامیا بی ہوتی ہے۔ در آ نحا لیکہ ہم اس کنوا رے کے دلِ وجا ن سے معتقد ہی نہیں مقّلد بھی تھے ۔جس نے اپنی متا عِ دل کسی دو شیزہ کے نام کر کے اُس سے شادی کی پچا س فیصد کامیا بی کا اعلان از خود ہی کر ڈالا تھا کہ اس سودے میں ایک فریق تو بہر حال رضامند تھا ۔ چنا نچہ ہم نے قطع نظر اُس طعن و تشنیع سے جو ایسے موقعوں پر بعض کوتاہ فکروں کی طرف سے ہر کسی کو سننی پڑتی ہے۔ اپنی ذات پر کوئی تا بڑ تو ڑ حملہ ہو تے نہ دیکھا ۔ جبھی شا ید ہم نے ا پنی ہمت کو غیرمتزلز ل پایا اور سچ پوچھیں تو۔۔ شہاب الدین غوری کی تو قیر بھی کُچھ اُسی موڑ پر ہما ری نگا ہوں میں پیدا ہوئی لہٰذا ہم نے صبر و شکر کا توبرا اپنے منہ پر چڑھا یا اور دن رات ایک کر کے دو اور دو چار جیسا حسا بی اور دوٹو ک فیصلہ کر ڈالا کہ تخت یاتختہ۔ اب ہم اِس نا مرادیٔ خفیف کا بارِ کثیف اپنے کندھوں پر ہرگز نہیں رہنے دیں گے۔

تعزیراتِ ہند کی دفعات کے اطلاق کی طرح کہ ملزم کو مقد مے کی تاریخیں سنا سنا کے جر ائم سے یوں بیزار کرو کہ اُس کا جی جینے ہی سے دُوبھر ہو جا ئے یا اُس پو ستی کی طرح جسے محض ایک بنیان میں ملبوس باربارکُھجلاتے دیکھ کر کسی نے مشورہ دیا تھا کہ … ’’بنیا ن اُتا ر کر اِسے جوؤں سے پاک کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘ تو اُس نے بنیا ن فی الفور اتاری‘ اسے الٹا اور پھر زیبِ تن کر لیا اور جب کچھ دیر بعد ۔۔۔۔۔۔ ۔۔’حسبِ چسکا‘پھرکُھجلا نے لگا تو مشورہ با ز کے مکرّ ر مشورے پر اُس نے بڑی سادگی سے کہا’’ ہاں ہاں حضرت !میں اِنہیں مارنا تو چاہتا ہوں لیکن ذرا …ٹُرا ٹُرا کے۔یعنی مبتلائے مسافت کر کے …‘‘ بورڈ کا روّیہ بھی اُن دنوں امید واروں کے ساتھ کچھ ایسا ہی تھا اور یوُں تھا کہ سپلیمنٹری امتحان اُن دنوں پنجاب بھر میں صرف لاہور ہی میں لیا جاتا تھا ۔ یہ اہتمام اُ س وقت کی نسبتاً کم آبادی کے پیشِ نظر تھا۔ بورڈ کے نوَنہا ل ہونے کے باعث تھا ۔یا خداوندانِ بورڈ ویسے ہی پیاسے کو کنوئیں تک بلانے میں توقیر محسوس کرتے تھے۔ بورڈ کی اس اجارَہ دارانہ دلیری پر توجہ دینے کی نہ تو ہمیں فر صت تھی اور نہ ہی کچھ ایسی ضرورت… بلکہ ہم تو ایک طرح سے اُس کے ممنوُن تھے ۔جس نے ہماری رضا مندی لئے بغیر ہمیں ایک ٹکٹ میں دو تماشے دیکھنے کا یہ نادر موقع فراہم کر دیا تھا۔ ایک امتحا ن میں ادائے قضا کا اور دوسرا شہر لاہور دیکھنے کا ۔ چنانچہ ہم نے امتحان بھی دیا اور لاہور بھی د یکھا نہ صرف ڈیٹ شیٹ کے مطابق ایک دو دنوں تک بلکہ اس سے ہشت گُو نہ، نُہ گُونہ مُدّت زیادہ تک۔

لاہور میں ہمارا قیام زمانۂ کالج کے دوران کے ایک استا دِمکرم کے گھر رہا۔ جو ہمارے معلوما تی حدوداربعہ سے بخوبی واقف تھے اور ہمیں گنوار سمجھنے میں صد فیصد حق بجا نب اور جنہوں نے پہلے ہی روز ہمیں لاہور کی اونچ نیچ سے آ گا ہ کر دیا اور تلقین یہ کی کہ اگر دورونِ لاہور کا سفر اختیا ر کرو، تو بذریعہ بس کرنا اور اگر جی ٹانگے کی سواری کو للچائے تو اپنی ٹانگو ں پر بھروسہ مو زوں رہے گا، کہ لاہور کے

’’کو چوان را اعتبا ر ے نیست‘‘

لیکن بسوں کے جو نمبر ا نہوں نے مقاما ت کی تفصیل کے ساتھ ہمیں بتائے اُس عا لمِ نَو عمر ی و نَو سفر ی میں اِس تخصیص کے ساتھ یاد رکھنا کہ کون سے نمبر کی بس کون سے مقام پر لے جائے گی۔ دھکم پیل کی صوُرت میں کسی ثمردار بس میں پیو ست ہونے والے اس مسافر کے سہوِنظر کی مثال تھی جو لگے ہاتھوں سیٹ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے ہی کسی آشنا سے گتھم گتھا ہو جاتا ہے لیکن جب گردوپیش کے ہنگا مہ پرور ماحول سے مانوس ہوتا ہے تو اچھی طرح شرما بھی نہیں سکتا ۔۔۔ اور یہ صو رت ہمیں اس لئے درپیش تھی کہ ا ند رونِ شہر کے مقامات کے نام ہمیں سرے سے آتے ہی نہ تھے۔ پطرس بخاری کے جغرافیۂ لاہور کے ہم حافظ نہ تھے لہٰذا ہما ری دلچسپی کا مرکز ا گر کچھ تھا تو مقاماتِشہر سے قطع نظر۔۔۔۔۔۔۔۔

بنی آدم ا عضائے یک دیگرند

تھا بلکہ اُس سے بھی کچھ اَ گیرے… کہ ہم تو…

کبوُتر با کبُو تر با ز با با ز

جیسے عقیدۂ خام میں مُبتلا تھے اور شعُرائے موجودہ وگزشتہ کی دید و زیارت کا سودااپنے دل و دماغ میں سموئے پھر تے تھے۔(یہ الگ بات… کہ امتحان ہم اقتصادیات کا دینے آئے تھے) اور کسی غلط نمبر کی بس میں بیٹھ کر (کہ خیر سے پہلے ہی ہما ری بس کا نمبر کُچھ ایسا صحیح نہ تھا ) اس فرض کی ادائیگی میں کسی قضا کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے جس کے لیے ہم لاہور میں اُترے تھے سو اِن بیس دنوں میں ہم نے پا پیادہ سعادت یہ حاصل کی کہ دو جرائدکے مدیرانِ گرامی کو جیسے ٹی وی کی سکرین پر دیکھ لیا جو لاریب مسلّمہ شاعر بھی تھے اور زیا رت ہم نے علامہ اقبا ل کے مزار کی کی، لیکن مقبرے سے برآمد ہُو ئے تو اسِ شکوے کے سا تھ (جس کا کوئی جواب نہ تھا ) کہ اتنے رئیس التحریر اور بسیار گو شاعر کے اِکّا دُکّا اشعار ہی اور وُہ بھی صرف ایک فارسی غزل کے۔۔۔ (جبکہ دعوئے فا رسی منسُوب بہ غا لب ہے)نقش بر دیو ار کیُو ں کئے گئے گو یا مزارِ اقبا لؒ کو ۔۔۔کُلیاتِ اقبا لؒکیونکر نہ بنا دیا گیا۔

اس یکّا و تنہا سفر میں جو ہمارے افعالِ خوداختیا ری کے سر اسر منافی تھا۔ ہمارا زادِ راہ زیادہ دنوں تک ہمارا ساتھ نہ دے سکا ۔ گھر سے کچھ منگوانا اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ امتحا ن سے ہماری پیکار دو روزہ تھی بِست روزہ نہ تھی۔ چنا نچہ اپنے زادِسفر میں فطری ا نداز میں تو سیع پیدا کر نے کی ایک کوشش میں کا میا ب ہوتے ہوتے ہم بال بال بچ گئے اور وُہ یوُں کہ ہم لاہور میں نوکر ہوتے ہوتے رہ گئے۔

ہمارے ایک اور میزبا ن کہ ہمارے پُرانے کر م فرما کے فرزندِ ارجمند تھے اور شہر کے کسی پریس کے معاملات میں مثلِ رضوا ن خاصے دخیل تھے۔۔۔۔ ہمیں اپنے پر یس میں سَو سوا سَو کی نوکر ی دلانے پر ازخود ہی آمادہ ہو گئے اور نہ صرف اِس امر کی یقین دہا نی کر ائی بلکہ ہمیں

………قو لِ مر واں جَا ن دارد

کا بالعمل قائل بھی کر دیا۔ مگر ہماری تعیناتی کے زبانی احکامات میں ہم پر شرط یہ عائد کر دی کہ راوی روڈ پر تمہارا قیام تمہارے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے عین مخالف ہے لہٰذا اپنا بستر بوریا اٹھا لاؤ اور یہیں کے ہو رہو، یعنی رہائش بھی پریس ہی میں رکھو۔

ہم کہ تجربات کے اوون سے بہت ورے تھے۔اور آتشِضروریات کے اوون میں جھنکنے کو تیار…… کہ

خود آئے نہ تھے، لائے گئے تھے

اپنے ساتھ بستر قسم کی کوئی چیز ہرگز لے کر نہیں آئے تھے بوریا البتہ ہمارے پاس ضرور تھا یعنی لکڑی کا ایک عدد اٹیچی کیس نما بکس جسے ہم اپناتا بوت تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم اس کے اندر نہ تھے بلکہ وہ ہمارے اندر تھا یعنی بغل میں۔ البتہ ہمارا ماضی و مستقبل اس میں ضرور پابند تھے کہ امتحانی سازورخت کے علاوہ ہم اس وقت تک کا اپنا سارے کا ساراشعری سرمایہ بھی اسی میں اٹھائے پھرتے تھے اور حادثہ یہ ہوا کہ اس تابوت کے دستے کی عمر‘آغاز سفرہی میں اس کی گراں شکمی کے باعث’ بہ پایاں رسیدہ بُود‘ یعنی پوری ہو چکی تھی لہٰذا موصوف ہم سے ہرآن مصافحے کی بجائے معانقے کا متقاضی تھا۔

جہاں تک لاہور بینی کا شوق تھا وہ تو ہم نے کچھ قدموں اور کچھ نگاہوں … پورا کر ہی لیا تھا مگر اب کہ بقول غالب

وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

ایک فرمائشی سّیاح سے یکایک ایک مزدور ہو کر ہم اپنی کارگاہ کو جا رہے تھے اور بقولِ استادِ مکرّم لاہورکے ’کوچواناں را اعتبارے نبود،اور بسوں پر ہمارا کوئی بس نہ تھاسو اس تابوت کے شکنجے سے ہمارا جانبر ہونا…… لمحہ بہ لمحہ خاصا… مخدوش ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ جب پھیپھڑوں کی دھونکنیاں جواب دینے لگیں تو ہم نے ایک شجرَسایہ دار کی پناہ لی اور تابوت کو زمین پر پٹخ…… اس پرپِڑی جمائی اور بیٹھ رہے۔

آ اے غم دوراں! درِ میخانہ ہے نزدیک

آرام سے بیٹھیں گے، ذرا بات کریں گے!

لیکن دا حسرتا…… کہ اس وقت کوئی چیونٹی یا مکڑا ہمیں اس درخت پر چڑھتا اور چڑھتے چڑھتے گرتا دکھائی نہ دیا، ورنہ ہمارا مستقبل لاہور جیسے قطب الارشاد شہر میں قیام کے طفیل جانے کیا سے کیا ہوتا۔اور جو ہوا وہ یہ تھا کہ ہم نے شہر سے نکلتی ہوئی ایک غیر اومنی بس کو اپنا خضرِراہ مانا اور جب بس کے نمبردار نے ہماری منزل کا پتہ پوچھا تو ہم نے بھی جواباً وہی کارروائی کرڈالی یعنی موصوف کی منزل پوچھ ڈالی جو راولپنڈی تھی، سوچند ہی گھنٹوں میں ہم اُس تابوت سمیت راولپنڈی میں تھے جہاں سے اپنے حواس کی بازیابی اور بکسے کی صحت یابی (یعنی دستہ یابی) کے بعد ہر طرح کی خیر خیریت کے ساتھ اپنے گاؤں پہنچ گئے۔

کیا فرض ہے یہ سب کو ملے ایک سا جواب

ماجد صدیقی