ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
سر سے تا پا حجاب سا وُہ
کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ
اُبھرے بھی جو سطحِ آرزُو پر
رُوکے نہ رُکے حباب سا وُہ
خوشبُو سا خیال میں دَر آئے
آنکھوں میں بسے گلاب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا‘ دُرِّ آب سا وُہ
چھایا ہے بہ لُطف ہر ادا سے
خواہش پہ مری نقاب سا وُہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ
بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
ماجدؔ ہو یہ جسُتجو مُبارک
ہاتھ آ ہی گیا سراب سا وُہ
ماجد صدیقی