ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
خاک ہے جس کا مقّدر وُہ نگینہ دیکھا
ہم نے مزدور کے ماتھے کا پسینہ دیکھا
بادباں جس کے کھوّیا نہیں کُھلنے دیتے
ہم نے دریا میں اک ایسا بھی سفینہ دیکھا
مکر آتا ہے جنہیں نام پہ اُن بونوں کے
جب بھی دیکھا کوئی خودکار ہی زینہ دیکھا
دشتِ خواہش بھی عجب دشت ہے ماجدؔ جس میں
سانپ دیکھا ہے جہاں کوئی خزینہ دیکھا
ماجد صدیقی
جواب دیں