ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
بس اتنا سا زیاں ہونے لگا ہے
گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے
غبارہ پھٹ کے رہ جانے کا قّصہ
ہماری داستاں ہونے لگا ہے
وُہ بھگدڑ کارواں میں ہے کہ جیسے
لُٹیرا پاسباں ہونے لگا ہے
رُکا تھا لفظ جو ہونٹوں پہ آ کر
وُہ اَب زخمِ زباں ہونے لگا ہے
نظر میں جو بھی منظر ہے سکوں کا
بکھرتا آشیاں ہونے لگا ہے
جو تھا منسوب کل تک گیدڑوں سے
اَب اندازِ شہاں ہونے لگا ہے
نظر میں تھا جو چنگاری سا ماجدؔ
وُہ گل اَب گلستاں ہونے لگا ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں