ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
ہمارے عہد میں کب دیدۂ بیدار غالب ہے
کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے
بچے بھی گر بھنور سے تو اُسے ساحل نہ اپنائے
یہاں ہر ناتواں پر ایک سا آزار، غالب ہے
پہنچ کر عمر کو بھی یوں ہوا محصورِ نااہلاں
کہ جیسے شیرِ نر بھی دشت پر، ناچار غالب ہے
وُہی جو سانپ کی یورش سے اُٹھے آشیانوں میں
سماعت در سماعت، بس وُہی چہکار غالب ہے
بنو ماجد نہ غالبؔ، ذوق بن جاؤ جو ممکن ہو
کہ دُنیائے ہُنر میں قربتِ دربار غالب ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں