ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
جمع کرتے بدن کی یہ نم، تھک گئے
ڈھونڈھتے، روز کا رزق ہم تھک گئے
یوں لگے، ڈھیل توبہ کی دیتے ہوئے
ہم پہ ہوتے رہے جو، کرم تھک گئے
ایک انساں، نہ سجدوں سے باز آ سکا
پُوجے جانے سے، کیا کیا صنم تھک گئے
آرزو جستجو اور محرومیاں
اس مسلسل سفر سے، قدم تھک گئے
ہیں کُچھ ایسی ہی ماجدؔ حکایاتِ غم
لکھتے لکھتے جنہیں، سب قلم تھک گئے
ماجد صدیقی
جواب دیں