ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
فصلیں اُجڑیں اور قُرقی کھلیان ہوئے
نام ہمارے،کیا کیا کُچھ تاوان ہوئے
اُگتی فصلوں کو چاٹا، آسیبوں نے
موسم بھر بھی، چاہ اگر، ویران ہوئے
رہبروں کی قامت، بالا کرنے کو
ہم کیا کیا، تعمیر کا ہیں سامان ہوئے
اپنے ناپ سے ناپیں، اُس کی رحمت کو
اِس جگ میں ایسے بھی کُچھ انسان ہوئے
ماجدؔ کاش، کبھی چھم سے، وُہ آ جائے
عمر ہوئی ہے ہم پر، یہ احسان ہوئے
ماجد صدیقی