ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
طلب پر مُنصفوں کی لو، عدالت میں چلے ہم بھی
شکم کی پرورش میں دیکھیئے مجرم ہوئے ہم بھی
بس اِتنی سی خطا پر، کھوجتے ہیں رزق کیوں اپنا
نگاہوں میں خداوندوں کی کیا کیا کچھ گرے ہم بھی
رگڑتے ایڑیاں، عزّت کی روزی تک پہنچنے میں
نہیں کیا کیا کہیں روکے، کہیں نوچے گئے ہم بھی
پرندوں سا یہ بّچے پالنا بھی، عیب ٹھہرا ہے
بنائیں دشت میں جا کر کہیں اَب گھونسلے ہم بھی
کہیں بے روزگاری پر وظیفے، اور کہیں دیکھو
یہ ہم جو خود کماؤُ ہیں، گئے ہیں دھر لئے ہم بھی
اَب اِس سے بڑھ کے ماجدؔ اور دوزخ دیکھنا کیسا
کہ ادراکِ حقائق سے نہیں کیا کچھ جلے ہم بھی
ماجد صدیقی
جواب دیں