ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
جس سے لرزاں تھی وُہ ڈر، یاد آیا
شاخ کو، پھر ہے تبر، یاد آیا
حبس سانسوں میں، جہاں بھی اُترا
مُجھ کو ہجرت کا، سفر یاد آیا
چاند تھا جن کا، چراغاں مَیں تھا
پھر نہ وُہ بام، نہ در یاد آیا
زخم سا محو، جو دل سے ٹھہرا
کیوں اچانک، وُہ نگر یاد آیا
کیسی سازش یہ صبا نے، کی ہے
کیوں قفس میں، گلِ ترا یاد آیا
بُوند جب، ابر سے بچھڑی ماجدؔ
مُجھ کو چھوڑا ہُوا گھر، یاد آیا
ماجد صدیقی
جواب دیں