ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
تمہارے خُلق میں فتنے ہیں کیا کیا، ہم نہیں کہتے
سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے
ہوئے ہیں زرد پتے لفظ کیا کیا کچھ، نہ وعدوں کے
تمہاری شاخِ لب کا ہے یہ خاصا، ہم نہیں کہتے
نہیں زیبا بڑوں کو کاٹنا ڈوریں پتنگوں کی
چھتوں پر ہے، مگر ایسا ہی نقشہ، ہم نہیں کہتے
نظر آتا ہے، چھّتا خیر کا لپٹا ہوا شر میں
کہو کیسا ہے یہ طُرفہ تماشا، ہم نہیں کہتے
کسی غنچے کو بھی، مہلت ملے ہرگز نہ کھلنے کی
وطیرہ ہے یہ ماجدؔ، حبسِ شب کا، ہم نہیں کہتے
ماجد صدیقی
جواب دیں