ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
پتھر کے تلے اگتے اور زیرِ عتاب آئے
جُگ بیت گئے ماجدؔ، اِس جاں پہ عذاب آئے
پھر اِذن دیا اُس نے، اظہارِ غم دل کا
پھر شاخِ لب و جاں پر، کھِلنے کو گلاب آئے
مائل ہوں جو شفقت پر اور جانیں، برسنا بھی
کھیتوں پہ لئے بوندیں ایسی، نہ سحاب آئے
ایوان نشینوں سے کیا آس، مُرادوں کی
کٹیاؤں کو پہلے بھی کب ایسے جواب آئے
جب بادِ صبا تک نے، لی ذات بدل اپنی
پودوں کے قد و رُخ پر، کیا رنگِ شباب آئے
جس طور لپکتی ہیں لینے کو، ہمیں موجیں
اُس پار کا ساحل بھی، اے کاش! شتاب آئے
ماجد صدیقی