ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ابروئے چشم دشمناں جیسا
تن گیا آسماں کماں جیسا
جبر کے موسموں سے زنگ آلود
جو بھی تھا برگ، تھا زباں جیسا
بھُولنے پر بھی دھیان جابر کا
پاس رہتا ہے پاسباں جیسا
جو بھی ہوتا ہے دن طلوع یہاں
سر پہ آتا ہے امتحاں جیسا
ہے نظر میں جو خواب سا ماجدؔ
ہے کوئی سروِ گلستاں جیسا
ماجد صدیقی
جواب دیں