ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
وُہ دن بھی تھے لپکنے اور لطفِ خاص پانے کو
ترّستی تھیں نگاہیں منظروں میں ڈوب جانے کو
ہمارے حق میں جو بھی تھی مسافت پینگ جیسی تھی
بہم تھیں فرصتیں ساری ہمیں، جس کے جھُلانے کو
نجانے پٹّیاں آنکھوں پہ لا کر باندھ دیں کیا کیا
اُسی نے جس سے چاہا، راہ کے روڑے ہٹانے کو
ہوئے تھے حرص سے پاگل سبھی، کیا دوڑتا کوئی
لگی تھی شہر بھر میں آگ جو، اُس کے بجھانے کو
نوالے کیا، نہیں خالص یہاں حرفِ تسلی تک
سبھی میں ایک سی افیون ملتی ہے سُلانے کو
چمک جن بھی صداؤں میں ذرا بیداریوں کی تھی
جتن کیا کیا نہ شاہوں نے کئے اُن کے دبانے کو
ہمارے نام ہی بندش جہاں بھی کچھ ملی، لکھ دی
ہمیں سے بَیر تھا ماجدؔ نجانے کیا زمانے کو
ماجد صدیقی
جواب دیں